سوال
کیا فرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ میں کہ "بچل شاہ” فوت ہوگیا، اس نے وارث چھوڑے: ایک بیٹی، ایک بھائی اور چار بیویاں۔ اس کے بعد "غلام نبی شاہ” بھی وفات پاگیا، اس نے وارث چھوڑے: چار بیویاں اور ایک بھتیجی۔ بتائیں کہ شریعت محمدی کے مطابق ہر ایک کو کتنا حصہ ملے گا؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مرحوم کے ہبہ کے متعلق
معلوم ہونا چاہیے کہ مرحوم نے جو مکان ہبہ کیا تھا وہ بحال اور برقرار رہے گا۔ اسی طرح اگر مرحوم نے سامان بھی ہبہ کردیا تھا اور اس پر تحریر یا گواہ موجود ہیں، تو وہ سامان بھی ہبہ میں شمار ہوگا۔
تقسیمِ ترکہ کا شرعی طریقہ
سب سے پہلے میت کی ملکیت میں سے:
➊ میت کے کفن دفن کا خرچہ نکالا جائے گا۔
➋ پھر اگر کوئی قرض ہے تو اسے ادا کیا جائے گا۔
➌ اس کے بعد اگر کوئی جائز وصیت کی تھی تو اسے پورا کیا جائے گا، لیکن وصیت کل مال کے تیسرے حصے سے زیادہ نہ ہو۔
ان امور کے بعد جو کچھ باقی بچے، وہی اصل ترکہ ہے۔ پھر تمام منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد کو "ایک روپیہ” فرض کرکے تقسیم یوں ہوگی:
پہلی تقسیم: مرحوم محمد بچل شاہ کا ترکہ
کل جائیداد: 1 روپیہ (منقولہ و غیر منقولہ)
◈ بیٹی: 8 آنے
◈ بھائی: 6 آنے
◈ چار بیویاں (مشترکہ): 2 آنے
دوسری تقسیم: مرحوم غلام نبی شاہ کا ترکہ
کل جائیداد: 1 روپیہ (منقولہ و غیر منقولہ)
◈ چار بیویاں (مشترکہ): 4 آنے
◈ بھتیجی: 12 آنے
جدید اعشاریہ نظام کے مطابق تقسیم
میت: بچل شاہ
کل ملکیت: 100 حصے
◈ بیٹی: 50 حصے (½)
◈ بھائی: 37.5 حصے (عصبہ)
◈ چار بیویاں: 12.5 حصے (⅛ مشترکہ)
میت: غلام نبی شاہ
کل ملکیت: 100 حصے
◈ چار بیویاں: 12.5 حصے (⅛ مشترکہ)
◈ بھتیجی: 87.5 حصے (ذوی الارحام)
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب