سوال
علمائے دین کی خدمت میں عرض ہے کہ ایک شخص بنام منٹھار فوت ہوا۔ اس نے ورثاء میں چھوڑے:
◄ ایک بیوی
◄ ایک بیٹی
◄ ایک بھائی احمد
◄ ایک چچازاد بھائی
اس کے بعد احمد بھی فوت ہوا، اس نے ورثاء میں چھوڑے:
◄ ایک بیوی
◄ ایک بیٹی
◄ ایک بھتیجی
◄ ایک چچازاد بھائی
◄ دو چچازاد بہنیں
اس کے بعد احمد کی بیوی بھی انتقال کر گئی، اس نے ورثاء میں چھوڑے:
◄ ایک بیٹی
◄ ایک بھائی
◄ دو بہنیں
شرعِ محمدیہ کے مطابق وضاحت فرمائیں کہ کس کو کتنا حصہ ملے گا؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ بات ہمیشہ ذہن میں رہے کہ کسی بھی میت کی ملکیت کی تقسیم سے پہلے درج ذیل امور ادا کیے جاتے ہیں:
➊ سب سے پہلے اس کے کفن دفن کے اخراجات نکالے جائیں گے۔
➋ پھر اگر اس پر قرض ہو تو وہ ادا کیا جائے گا۔
➌ اگر کوئی جائز وصیت کی ہو تو کل مال کے تہائی حصے تک اسے پورا کیا جائے گا۔
➍ ان سب کے بعد باقی مال منقولہ یا غیر منقولہ، سب کو ایک یونٹ (یعنی ایک روپیہ) تصور کر کے ورثاء میں تقسیم کیا جائے گا۔
میت: منٹھار
کل ملکیت: 1 روپیہ
ورثاء کے حصے:
◄ بیوی = 2 آنے
◄ بیٹی = 8 آنے
◄ بھائی احمد = 6 آنے
◄ چچازاد بھائی = محروم
حدیث مبارکہ:
((الحقوا الفرائض باهلها فما بقي فلأولى رجل ذكر.))
صحیح البخاری: کتاب الفرائض، باب میراث ابن الابن إذا لم يكن ابن، حدیث نمبر: 6735
صحیح مسلم: کتاب الفرائض، باب ألحقوا الفرائض بأهلها، حدیث نمبر: 4141
میت: احمد
کل ملکیت: 1 روپیہ
ورثاء کے حصے:
◄ بیوی = 2 آنے
◄ بیٹی = 8 آنے
◄ بھتیجی = محروم
◄ دو چچازاد بہنیں = محروم
◄ چچازاد بھائی = 6 آنے
قرآن مجید کی دلیل:
﴿فَإِن كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ﴾
میت: احمد کی بیوی
کل ملکیت: 1 روپیہ
ورثاء کے حصے:
◄ بیٹی = 8 آنے
◄ بھائی = 4 آنے
◄ دونوں بہنیں = مشترکہ 4 آنے
قرآن مجید کی دلیل:
﴿وَإِن كانَت وٰحِدَةً فَلَهَا النِّصفُ﴾ (النساء: 11)
جدید اعشاریہ نظام کے مطابق تقسیم
میت: منٹھار – کل ملکیت 100
◄ بیوی (1/8) = 12.5
◄ بیٹی (1/2) = 50
◄ بھائی احمد (عصبہ) = 37.5
◄ چچازاد بھائی = محروم
میت: احمد – کل ملکیت 100
◄ بیوی (1/8) = 12.5
◄ بیٹی (1/2) = 50
◄ چچازاد بھائی (عصبہ) = 37.5
◄ بھتیجی = محروم
◄ دو چچازاد بہنیں = محروم
میت: احمد کی بیوی – کل ملکیت 100
◄ بیٹی (1/2) = 50
◄ بھائی (عصبہ) = 25
◄ دو بہنیں (عصبہ) = 25 (فی کس 12.5)
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب