وعنه رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: لا يمش احدكم فى نعل واحدة ولينعلهما جميعا او ليخلعهما جميعا [متفق عليه]
”ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ہی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم میں سے کوئی شخص ایک جوتا پہن کر نہ چلے، دونوں پاؤں کو پہنائے یا
دونوں جوتے اتار دے۔ “ [متفق عليه] ، [بلوغ المرام : 1248]
تخریج : [بخاري : 5855 ] ، [مسلم : الباس19 ] ، [بلوغ المرام : 1248] دیکھئے [تحفة الاشراف 187/10]
مفردات : لينعلهما نووی نے ضبط کیا ہے کہ یہ یاء کے ضمہ کے ساتھ انعل ينعل (إفعال) سے ہے جس کا معنی جوتا پہنانا ہے۔ هما سے مراد دونوں پاؤں ہیں ان کا ذکر اگرچہ پہلے نہیں گزرا مگر ضمیر اس لئے لائی گئی ہے کہ جوتا پہنانے سے خود بخود سمجھ آ رہی ہے کہ جوتا کون سے عضو میں پہنا جاتا ہے۔ اگر لينعلهما ”ع“ کے فتحہ کے ساتھ ہو تو یہ علم يعلم سے ہو گا۔ قاموس میں ہے نعل كفرح وانتعل وتنعل اس نے جوتا پہنا۔ اس صورت میں هما سے مراد ”دونوں جوتے “ ہوں گے یعنی دونوں جوتے پہن لے۔ ليخلعهما هما سے مراد ”جوتے “ ہیں۔ یعنی دونوں جوتے اتار دے۔ بخاری کی ایک روایت میں اؤ ليحفهما ہے یا دونوں کو ننگا رکھے اس وقت هما سے مراد دونوں پاؤں ہوں گے۔
فوائد :
➊ جوتے کا مقصود پاؤں کو تکلیف دہ چیزوں مثلاً کانٹے وغیرہ سے بچانا ہوتا ہے۔ جب صرف ایک پاؤں میں جوتا ہو تو دوسرے پاؤں کو بچانے کے لئے خاص جدوجہد کرنی پڑتی ہے جس سے اس کی معمول کی چال برقرار نہیں رہتی نہ ہی جسم کا توازن درست رہتا ہے۔ اور پاؤں میں موچ آنے کا خطرہ ہوتا ہے اس کوشش میں آدمی گر بھی سکتا ہے (فتح) بظاہر یہ حکمتیں معلوم ہوتی ہیں مگر ہر حکم کی اصل علت اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔
➋ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایک جوتا پہن کر چلنا حرام ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اصل یہی ہے صحیح مسلم میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں یہ لفظ آئے ہیں کہ ”جب تم سے کسی شخص کے جوتے کا تسمہ ٹوٹ جائے (جو انگوٹھے میں ہوتا ہے اور اس کے ٹوٹنے سے آدمی جوتے میں چل نہیں سکتا) تو ایک جوتے میں نہ چلے۔ “جب چلتے چلتے ٹوٹ جانے کی صورت میں بھی ایک جوتا پہن کر چلنے کی اجازت نہیں تو بغیر ضرورت کس طرح اجازت ہو سکتی ہے۔
➌ بعض لوگ کہتے ہیں کہ بہتر ہے کہ ایک جوتا پہن کر نہ چلے لیکن اگر کبھی ایک جو پہن کر چلے تو حرام نہیں کیونکہ ترمذی میں عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ : ربما مشي النبى صلى الله عليه وسلم فى نعل واحدة ”کئی دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک جوتا پہن کر چلتے پھرتے تھے۔ “ [ترمذي، اللباس]
مگر یہ روایت ضعیف ہے اس میں لیث بن ابی سلیم ہیں تقریب میں ہے صدوق اختلط ولم يتميز حديثه فترك علاوہ ازیں یہ متفق علیہ حدیث کے بھی خلاف ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ یہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا عمل ہے۔ جیسا کہ ترمذی میں صحیح سند کے ساتھ مذکور ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ وغیرہ نے اسی کو ترجیح دی ہے۔ [ فتح]
کسی صحابی کا عمل دلیل نہیں ہوتا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف سے یہ عذر سمجھا جائے گا کہ انہیں حدیث نہیں پہنچی یا کسی تاویل کی وجہ سے انہوں نے اس پر عمل نہیں کیا۔
➍ جابر رضی اللہ عنہ نے ایک جنگ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ اکثر جوتے پہن کر رکھا کرو کیونکہ آدمی جب تک جوتا پہنے ہوئے ہوتا ہے وہ سوار ہوتا ہے۔ [مسلم، لباس ب 66 ]
➎ فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں حکم دیا کرتے تھے کہ کبھی کبھی ننگے پاؤں چلا کریں۔ [ابوداود الترجل ب : 1] اور دیکھئے [صحيح ابوداود]
مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں میں سخت کوشی باقی رہے۔ ایسا نہ ہو کہ جوتا ٹوٹ جانے کی صورت میں یا موجود نہ ہونے کی صورت میں چل ہی نہ سکیں۔ جب کسی شخص کی عادت ہو جائے کہ وہ کبھی کبھی ننگے پاؤں چلتا پھرتا رہے تو ایک جوتا ٹوٹنے کی صورت میں ننگے پاؤں چلنے میں نہ اسے لوگوں سے حیاء مانع ہو گی نہ نازک بدنی اسے ننگے پاؤں چلنے سے روکے گی۔
➏ جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب تم میں سے کسی شخص کے جوتے کا تسمہ ٹوٹ جائے تو وہ ایک جوتا پہن کر نہ چلے یہاں تک کہ اپنا تسمہ درست کر لے اور ایک موزہ پہن کر نہ چلے۔ [مسلم، لباس ب 20 ]
اس سے معلوم ہوا کہ ایک پاؤں میں موزہ یا جراب پہن کر چلنا پھرنا بھی جائز نہیں۔
بعض لوگ اس کے ساتھ یہ بڑھاتے ہیں کہ قمیص کی ایک آستین اتار کر نہ چلے وغیرہ مگر یہ اضافے اپنی طرف سے ہیں، ان سے کوئی چیز دین نہیں بن سکتی۔