عبدالمجید کے ترکہ کی تقسیم اور بیوہ کے گھر کا شرعی حکم
ماخوذ : فتاویٰ راشدیہ صفحہ نمبر 579

سوال

کیافرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ عبدالمجید فوت ہوگیا اور اس کے بھائی نے عبدالمجید کی بیوی سے کہا کہ میں اس کو نئی جگہ بنا کر دیتا ہوں، پھر جو تیری جگہ ہے وہ تجھے دوں گا۔ عبدالمجید کی بیوہ کو تقریباً 9 سال اس گھر میں رہتے ہو گئے ہیں۔ اب عبدالمجید کے بھائی فوت ہو گئے اور بیوہ کو یہ گھر نہیں دیتے۔ عبدالمجید کے ورثاء میں سے ایک بیوی، دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

معلوم ہونا چاہیے کہ سب سے پہلے فوت ہونے والے کی ملکیت میں سے کفن دفن پر خرچ کیا جائے گا، پھر اگر قرضہ ہے تو اسے پورا کیا جائے گا، اس کے بعد اگر کوئی وصیت ہے تو اسے بھی ثلث مال سے ادا کیا جائے گا۔

فوت ہونے والے عبدالمجید اپنے ہی گھر میں رہائش پذیر تھے جس کی جگہ بھی الگ ہے، اب اس کے مالک اس کی بیوی اور اولاد ہیں۔ جب فوت ہونے والے کے بھائی نے وعدہ کیا کہ جگہ بنا کے دوں گا اور اس میں فوت ہونے والے کی بیوی بھی تقریباً 9 سال اپنے بچوں کے ساتھ رہی ہے، اس لیے اس کی ملکیت بھی وہی (بیوہ اور بچے) ہوں گے۔

جدید اعشاریہ فیصد نظام تقسیم

کل ملکیت: 100

بیوی: 8/1 = 12.5%

دو بیٹے (عصبہ): 58.333% → فی کس 29.166%

دو بیٹیاں (عصبہ): 29.166% → فی کس 14.583%

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے