وراثت کی تقسیم: تین بیٹے اور ایک بیٹی کا حصہ
ماخوذ : فتاویٰ راشدیہ، صفحہ نمبر 567

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک شخص بنام خان محمد فوت ہوگیا اور یہ ورثاء چھوڑے: تین بیٹے اور ایک بیٹی۔ شریعت محمدی کے مطابق مذکورہ ورثاء کو کتنا کتنا حصہ ملے گا؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مرحوم کی ملکیت میں سے پہلے کفن دفن کا خرچہ اور قرضہ وغیرہ ادا کرنے کے بعد جو باقی مال بچے، اسے اس طرح تقسیم کیا جائے گا کہ کل مال کو 1 روپیہ مان کر تقسیم کی جائے۔

ہر ایک بیٹے کو 4 آنے 6 پائیاں ملیں گے۔
بیٹی کو 2 آنے 3 پائیاں ملیں گی۔

اب باقی بچنے والی 3 پائیوں کے سات (7) حصے بنا کر:

◈ ایک (1) حصہ بیٹی کو دیا جائے گا۔
◈ دو (2،2) حصے ہر ایک بیٹے کو دیئے جائیں گے۔

دلیل

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿يُوصيكُمُ اللَّـهُ فى أَولـٰدِكُم ۖ لِلذَّكَرِ مِثلُ حَظِّ الأُنثَيَينِ…١١﴾ …النساء

موجودہ فیصد و اعشاریہ میں تقسیم

کل ترکہ: 100

3 بیٹے (عصبہ): 85.72
1 بیٹی (عصبہ): 14.28

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے