سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ جمال خاتون نے اپنی زندگی میں اپنے والد کی وراثت سے حاصل ہونے والا سارا حصہ اپنی خوشی اور رضامندی سے اپنے چچا زاد بھائیوں غلام حسین اور حبیب اللہ کو بطور ہبہ (گفٹ) دے دیا۔
اب جمال خاتون کے انتقال کے بعد، ان کا بیٹا اور دوسرے وارث اس دیے گئے ہبہ کو واپس لینا چاہتے ہیں۔ براہ کرم وضاحت فرمائیں کہ کیا اس ہبہ کی ہوئی ملکیت کو واپس لینا جائز ہے یا نہیں؟ شریعت محمدی ﷺ کے مطابق اس کا کیا حکم ہے؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ بات اچھی طرح معلوم ہونی چاہیے کہ ہبہ کی ہوئی ملکیت کو واپس لینا جائز نہیں ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کی حدیث مبارکہ میں اس کی سخت ممانعت آئی ہے۔
((عن ابن عباس قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم العائد فى هبته كالكلب يقيئى ثم يعود فى قيئه.))
صحيح البخارى، كتاب الهبة، باب نمبر ٣٠، مسلم، كتاب الهبات، باب نمبر ٢، نسائى، كتاب الهبة، بان ذكر الأختلاف على طاوس فى الراجع هبته، رقم الحديث: ٣٤٦١
‘‘ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ہبہ کی ہوئی چیز واپس لینے والا اس کتے کی طرح ہے جو قے کرتا ہے اور پھر اسی کو کھا لیتا ہے۔’’
حکم شرعی
◈ حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ مالک کے لیے اپنی دی ہوئی ہبہ کی ہوئی چیز کو واپس لینا ناجائز ہے۔
◈ جب اصل مالک کے لیے ہی اپنی دی ہوئی چیز واپس لینا حرام و ناجائز ہے، تو ورثاء کے لیے تو بدرجہ اولیٰ ناجائز ہوگا کہ وہ کسی اور کے حق میں کیے گئے ہبہ کو واپس لینا چاہیں۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب