وراثت کی تقسیم: خاوند، دو بیٹیاں اور بھائیوں کا حصہ
ماخوذ : فتاویٰ راشدیہ، صفحہ نمبر 564

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلے میں کہ ایک عورت مسمات سوہنی کا انتقال ہوگیا۔ اس کے ورثاء میں خاوند، دو بیٹیاں اور دو بھائی شامل ہیں۔ مرحومہ کی ملکیت میں سے ورثاء کا حصہ کس طرح تقسیم ہوگا؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ بات واضح ہو کہ اس صورت میں سب سے پہلے مرحومہ کے کفن دفن کا خرچ مرحومہ کی جائیداد سے نکالا جائے گا۔ اس کے بعد اگر مرحومہ پر کوئی قرض ہے تو وہ ادا کیا جائے گا۔ قرض کی ادائیگی کے بعد باقی بچنے والی جائیداد کو ایک روپیہ فرض کر لیا جائے۔ پھر اس ایک روپے کی تقسیم اس طرح ہوگی:

خاوند کو 4 آنے ملیں گے۔
ہر ایک بیٹی کو 5 آنے اور 4 پائیاں ملیں گے۔
ہر ایک بھائی کو 8 پائیاں ملیں گے۔

موجودہ اعشاری نظام میں تقسیم

اگر ترکہ کو 100 فرض کیا جائے تو تقسیم اس طرح ہوگی:

خاوند: 25
دو بیٹیاں: 66.66 (یعنی ہر ایک کو 33.33)
دو بھائی (عصبہ): 8.34 (یعنی ہر ایک کو 4.17)

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے