مسجد میں آواز بلند کرنا
اور آداب مسجد میں سے ہی ایک ادب یہ بھی ہے کہ مسجد میں آواز بلند نہ کی جائے. بلکہ اگر کوئی مباح بات کرنی پڑے تو مسجد کے تقدس و احترام کو پیش نظر رکھتے ہوئے انتہائی دھیمے لہجے سے بات کی جائے۔ مسجد میں آواز بلند کرنے کی ممانعت کے بارے میں صحیح بخاری ”کتاب الصلوٰة، باب رفع الصوت في المسجد“ میں حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں:
كنت قائما فى المسجد فحصبني رجل فنظرت فإذا هو عمر بن الخطاب رضي الله عنه، فقال: اذهب فأتني بهذين، فجئته بهما، قال: من أنتما؟ أو من أين أنتما؟ قالا: من أهل الطائف، قال: لو كنتما من أهل البلد لأوجعتكما ترفعان أصواتكما فى مسجد رسول الله صلى الله عليه وسلم
میں مسجد میں کھڑا تھا کہ مجھے کسی نے کنکری ماری۔ میں نے مڑ کر دیکھا تو وہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ تھے۔ انہوں نے فرمایا: جاؤ اور ان دونوں آدمیوں کو میرے پاس لاؤ۔ میں انہیں جا کر لے آیا تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تم کون ہو؟ یا پوچھا تم کہاں سے ہو؟ انہوں نے بتایا کہ ہم طائف سے آئے ہیں۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگر تم یہاں ہمارے شہر سے ہوتے تو تمہیں تکلیف دہ سزا دیتا۔ تم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد مبارک میں اپنی آواز بلند کرتے ہو۔
بخاری 470/1
شارح بخاری حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں اس اثر فاروقی کے بارے میں لکھا ہے کہ بظاہر تو یہ اثر یعنی عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا فعل ہے۔ لیکن اس کا حکم مرفوع حدیث کا ہے کہ یہ ممانعت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔ ورنہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ انہیں کوڑوں کی سزا کا ہرگز نہ کہتے۔
فتح الباری 560/1 حدیث 470
یہی واقعہ مصنف عبد الرزاق میں ایک دوسرے طریق سے بھی مروی ہے۔ جس میں حضرت نافع رحمہ اللہ بیان فرماتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے:
لا تكثروا اللغط
”مسجد میں چیخ و چنگاڑ مت کیا کرو۔“
اور آگے اس روایت میں یہ بھی ہے:
إن مسجدنا هذا لا يرفع فيه الصوت
بحوالہ فتح الباری ایضاً
”ہماری اس مسجد میں آواز بلند نہیں کی جائے گی۔“
لیکن اس کی سند میں انقطاع پایا جاتا ہے، کیونکہ نافع رحمہ اللہ نے اس واقعہ کے رونما ہونے کا زمانہ نہیں پایا۔
بحوالہ فتح الباری ایضاً
جبکہ مسجد میں آواز بلند کرنے کی ممانعت کے سلسلہ میں ہی اس اثر فاروقی سے بھی استدلال کیا جا سکتا ہے۔ جو موطا امام مالک میں حضرت سالم بن عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے طریق سے مروی ہے، جس میں ہے:
بنى عمر إلى جانب المسجد رحبة فسماها البطيحاء فكان يقول: من أراد أن يلغط أو ينشد شعرا أو يرفع صوتا فليخرج إلى هذه الرحبة
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے مسجد کے ساتھ ہی ایک چبوترہ سا بنوا رکھا تھا۔ جس کا نام بطیحاء رکھا ہوا تھا۔ اور وہ فرمایا کرتے تھے: جو چیخ و چنگاڑ یا شعر گوئی یا کسی معاملہ میں آواز بلند کرنا چاہے، تو اسے چاہیے کہ وہ اس چبوترے کی طرف چلا جائے۔
بحوالہ فتح الباری 156/13 و موطا امام مالک
ایسے ہی جہاں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی یہ آثار مساجد میں آواز بلند کرنے کی ممانعت پر دلالت کرتے ہیں، تو ان کی تائید بعض مرفوع احادیث سے بھی ہوتی ہے۔ لیکن بذات خود وہ ضعیف ہیں۔ مثلاً سنن ابن ماجہ، مصنف عبد الرزاق اور طبرانی کبیر میں حضرت واثلہ رحمہ اللہ والی جو حدیث مسجد میں نفاذ حدود و تعزیرات کی ممانعت کے سلسلہ میں گزری ہے۔ اس میں یہ الفاظ بھی ہیں:
جنبوا مساجدكم.. رفع أصواتكم
”اپنی مساجد میں آواز بلند کرنے سے اجتناب کرو۔“
قد مر و ذکر ضعفه
ان احادیث و آثار کی بناء پر بعض اہل علم نے مطلقاً مسجد میں آواز بلند کرنے کو مکروہ و ممنوع قرار دیا ہے۔ حتیٰ کہ علامہ ابن عبد البر رحمہ اللہ نے جامع بیان العلم و فضلہ میں، اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں امام مالک رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے کہ ان سے مسجد میں علم سکھانے کے لیے آواز بلند کرنے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا:
ایسے علم میں کوئی خیر و بھلائی نہیں جو مسجد میں شور مچانے کا باعث بنے۔ میں نے لوگوں کو زمانہ قدیم سے اس فعل کو معیوب سمجھتے پایا ہے۔ لہذا میں اسے مکروہ سمجھتا ہوں۔
اعلام الساجد ص 326 – فتح الباری 560/1
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے طرز عمل اور امام مالک رحمہ اللہ کے ارشاد کو سامنے رکھا جائے، تو مساجد میں اگر حصول علم کے لیے بعض دوسری احادیث سے استدلال کرتے ہوئے آواز بلند کرنے کی گنجائش نکلتی ہے، تو سامنے بیٹھے ہوئے سامعین کی نعرہ بازی کی اس سے گنجائش قطعاً نہیں نکلتی۔ بلکہ آج ہمارے لوگوں میں نعرہ بازی کا جو انداز آچکا ہے کہ وہ مسنون نعرہ تکبیر پر اکتفاء ہی نہیں کرتے، تو ایسے خود ساختہ نعروں کا جواز کشید کرنا تو اور بھی مشکل امر ہے۔ کیونکہ ان میں سے بعض تو نہ صرف تقدس و احترام مسجد کے منافی ہیں بلکہ اہل سنت کے صحیح و متفقہ عقائد کے بھی خلاف ہوتے ہیں۔
لہذا مساجد میں خطیب یا مقرر کو بغور صرف سننا ہی چاہیے۔ بلاوجہ کی نعرہ بازی آداب مسجد کے منافی ہے۔ وہ تو عموماً مجلس کو گرمانے کے لیے ہوتی ہے۔ جبکہ وہ کسی عام یا کھلی جگہ پر منعقد ہو، نہ کہ مسجد کی پرامن و پرسکون فضا میں ارتعاش پیدا کرنے کے لیے۔ اور اگر مسجد میں نعرہ بازی خطبہ جمعہ کے دوران ہو تو یہ اور بھی ناجائز بات ہے۔ کیونکہ جمعہ کے تو خود اپنے بھی بعض آداب اور پابندیاں ہیں جو ایسے امور کی سامعین کو قطعاً اجازت نہیں دیتیں۔
البتہ امام و خطیب یا مدرس و مقرر کے مسجد میں آواز بلند کرنے کے جواز پر صحیح بخاری کی اس حدیث سے استدلال کیا جاتا ہے۔ جس میں مذکور ہے کہ حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ اور حضرت ابن ابی حدر رضی اللہ عنہ کے مابین کوئی قرض کا لین دین تھا۔ حضرت کعب رضی اللہ عنہ نے تقاضا کیا تو اسی معاملہ میں ان کی آوازیں بلند ہو گئیں۔ حتیٰ کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھر میں ان کی آواز سنی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد کی طرف کھلنے والے دروازے سے پردہ اٹھایا (كشف سجف حجرته) اور حضرت کعب رضی اللہ عنہ سے مخاطب ہو کر فرمایا:
” کہ تم اپنا کچھ یعنی آدھا قرض معاف کر دو، انہوں نے فوراً تعمیل کی اور دوسرے صحابی کو حکم فرمایا کہ اب تم بقیہ قرض ادا کرو۔ “
بخاری 551/1، 552، 561
اس حدیث سے آواز بلند کرنے کا جواز اخذ کیا جاتا ہے۔ جبکہ یہ آواز بلند بھی چیخ و چنگاڑ اور نعروں کی شکل میں نہ ہو، اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے مسجد میں جو علم کے لیے آواز بلند کرنے کو جائز قرار دیا ہے، تو اسے اس پر محمول کیا جائے گا کہ اگر تعلیم کے لیے آواز بلند ہو تو جائز، ورنہ ناجائز۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح کے باب ”رفع الصوت فی المسجد“ میں ان دونوں حدیثوں کو وارد کر کے اس فرق کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ لہذا ادب و احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے ایسے ہر فعل سے پرہیز کرنا چاہیے جو مسجد کی بے ادبی و بے حرمتی کا باعث ہو۔
فتح الباری 552/1، 560، 561 – سبل السلام 155/1/1 – اعلام الساجد ص 326، 327 اردو