بیٹے کا والد کو گھر سے نکالنا اور شرعی حکم
ماخوذ : فتاویٰ راشدیہ، صفحہ نمبر: 556

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ محمد رمضان کے چھ بیٹے ہیں، جن میں سے چار اکٹھے رہتے ہیں اور دو الگ رہتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ جو بیٹے الگ رہتے ہیں وہ اپنے والد کو گھر سے نکالنا چاہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ گھر ہمارا ہے، اس جگہ پر ہمارا حق ہے۔ وہ اپنے والد کو زبردستی گھر سے نکال دینا چاہتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ اگر گھر سے نہیں نکلتے تو پھر ہمیں اس کی قیمت ادا کریں۔

شریعت محمدی کے مطابق اس جگہ کا حق دار بیٹا ہے یا باپ؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ بات جان لینی چاہیے کہ اس جگہ کا حقیقی مالک باپ ہے، جیسا کہ حدیث پاک میں فرمایا گیا ہے:

((أنت ومالك لابيك.)) مسند احمد ٢/٢٠٤، سنن ابى داود ’كتاب البيوع باب الرجل ياكل من مال ولده’ رقم الحديث ٣٥٣٠، سنن ابن ماجه كتاب التجارات ’باب ما للرجل من مال ولده’ رقم: ٢٢٩١

’’نبی کریم ﷺ نے ایک آدمی کو فرمایا کہ تو اور تیرا مال تیرے باپ کی ملکیت ہے۔‘‘

اس حدیث مبارکہ سے ثابت ہوا کہ جب تک باپ زندہ ہے، بیٹا کسی بھی چیز پر مالک یا حقدار نہیں ٹھہرتا۔ لہٰذا اس جگہ کے حقیقی مالک محمد رمضان ہی ہیں۔

ھذا ما عندی واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے