صحیح بخاری میں شیعہ راوی اور امام نسائی و حاکم پر شیعیت کا الزام
ماخوذ : فتاویٰ راشدیہ، صفحہ نمبر 549

سوال

کیا صحیح بخاری میں شیعہ راوی موجود ہیں؟ اور کیا امام نسائی اور امام حاکم رحمہم اللہ بھی شیعہ تھے؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صحیح بخاری میں شیعہ راویوں کی موجودگی

جی ہاں، صحیح بخاری میں واقعی کچھ شیعہ راوی موجود ہیں۔ لیکن یہ بات واضح رہے کہ متقدمین کے نزدیک "شیعہ” اور "روافض” میں بڑا فرق تھا۔ ان کے ہاں شیعہ کا مفہوم آج کے شیعہ حضرات کی طرح نہیں تھا کہ جن کے نزدیک روافض اور شیعہ کے درمیان کوئی فرق نہیں۔

شیعہ (متقدمین کے نزدیک):
وہ افراد جو صرف "تفضیل” کے قائل تھے۔ یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے افضل سمجھتے تھے۔ تاہم وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو برحق امام اور جلیل القدر صحابی بھی مانتے تھے۔ ایسے کچھ اہل سنت بھی گزرے ہیں جنہوں نے علی رضی اللہ عنہ کو عثمان رضی اللہ عنہ سے افضل کہا ہے۔ لہٰذا یہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں جو ناقابلِ برداشت یا قابلِ اعتراض ہو۔

کچھ دیگر شیعہ:
بعض ایسے بھی تھے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما سے افضل سمجھتے تھے۔ مگر وہ بھی دونوں حضرات کو برحق امام اور جلیل القدر صحابہ مانتے تھے۔ ان کا یہ نظریہ زیادہ سے زیادہ "بدعت” کے درجے میں آتا ہے۔

بدعتی راوی کی روایت قبول کرنے کی شرائط

اصولِ حدیث میں مبتدع کی روایت درج ذیل شرائط کے ساتھ قبول کی جاتی ہے:

➊ وہ صدوق اور جھوٹ سے بری ہو، یعنی اس پر کذب کا الزام نہ ہو اور عادل ہو۔
➋ اپنی بدعت کی طرف دعوت دینے والا نہ ہو۔
➌ اس کی روایت اس کی بدعت کی مؤید نہ ہو۔

روافض کے بارے میں

روافض (متقدمین کے نزدیک):
وہ لوگ تھے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ اور چند دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم کے علاوہ باقی تمام صحابہ کو (نعوذ باللہ) بےدین، غاصب وغیرہ کہتے تھے۔ گویا انہوں نے علی رضی اللہ عنہ کے علاوہ سب کو ترک کردیا۔ ایسے شخص کی روایت قطعاً ناقابلِ قبول ہے۔

علامہ امیر علی کی تحقیق

شیعیت اور رافضیت کے اس فرق کو علامہ امیر علی رحمہ اللہ نے "تقریب التہذیب” کے حاشیہ کے بعد شامل کیا ہے۔ اس میں انہوں نے اصولِ حدیث، فن رجال اور دیگر مسائل پر کافی تفصیل لکھی ہے۔ یہ رسالہ نہایت مفید اور مطالعے کے لائق ہے۔

صحیح بخاری کے شیعہ راوی

الحمدللہ صحیح بخاری میں جو شیعہ راوی ہیں:

✿ وہ اپنی بدعت کی طرف داعی نہیں تھے۔
✿ ان کی روایات بدعت کی مؤید بھی نہیں۔
✿ وہ اپنی ذات میں ثقہ اور صدوق تھے۔
✿ بلکہ بعض کی ایسی روایات بھی موجود ہیں جو ان کے اپنے مسلک کے خلاف جاتی ہیں۔
لہٰذا ایسے راویوں کی روایت میں کوئی حرج نہیں اور امام بخاری رحمہ اللہ پر کوئی اعتراض وارد نہیں ہوتا۔ تفصیل کے لیے اصولِ حدیث کی کتب کا مطالعہ کیا جائے۔

امام نسائی رحمہ اللہ کے بارے میں

✿ امام نسائی کے بارے میں شیعہ ہونے کا کہنا بالکل غلط اور بے بنیاد اتہام ہے۔
✿ انہوں نے "خصائص علی” نامی کتاب اس لیے لکھی کہ ان کا واسطہ ایسے لوگوں سے پڑا جو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے سخت بغض رکھتے تھے اور ان کے بارے میں ناشائستہ باتیں کرتے تھے۔
✿ چنانچہ امام نسائی نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی مدافعت میں یہ کتاب لکھی۔
✿ اس میں صحیح احادیث بھی ہیں اور ضعیف بھی۔
✿ لیکن یہ طریقہ محدثین کا عمومی طریقہ رہا ہے کہ وہ اپنی کتب میں صحیح و ضعیف دونوں اقسام کی احادیث جمع کرتے ہیں (جیسا کہ ترمذی، ابن ماجہ اور ابوداؤد میں بھی ہے)۔

امام حاکم رحمہ اللہ کے بارے میں

✿ امام حاکم کے بارے میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے "تذکرۃ الحفاظ” میں لکھا ہے کہ وہ شیعیت کی طرف مائل تھے۔
✿ لیکن وہ غالی شیعہ یا رافضی نہیں تھے، بلکہ صرف "تفضیل” کے قائل تھے۔
✿ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کی بہت زیادہ تعظیم و تکریم کرتے تھے۔
✿ شیعیت اور رافضیت کا فرق اوپر ذکر ہوچکا ہے۔
✿ امام حاکم کا مقام علم حدیث میں نہایت بلند ہے۔
✿ کتبِ تاریخ اور "تذکرۃ الحفاظ” میں ان کے ترجمے سے واضح ہوتا ہے کہ بڑے بڑے ائمہ اور حفاظِ حدیث نے ان کی عظمت اور تعریف کی ہے۔

امام حاکم کی کتاب "المستدرک”

✿ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ امام حاکم کو اپنی کتاب "المستدرک” کی مکمل نظرثانی کا موقع نہ مل سکا۔
✿ اسی وجہ سے اس میں کچھ منکر اور موضوع احادیث موجود ہیں۔
✿ اس کے باوجود اس میں بہت سی صحیح اور حسن احادیث بھی پائی جاتی ہیں۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے