اسلام میں ترکہ کی تقسیم کے 4 اہم مراحل
یہ اقتباس مولانا ابو نعمان بشیر احمد کی کتاب اسلامی قانون وراثت سے ماخوذ ہے۔

سوال:

میت کا ترکہ ورثاء میں کب تقسیم کرنا چاہیے؟

جواب:

میت کا ترکہ جب تین مراحل طے کر کے چوتھے میں پہنچے گا تو ورثاء میں تقسیم ہوگا، یعنی ترکہ کے ساتھ چار حقوق تعلق رکھتے ہیں جو بالترتیب درج ذیل ہیں:
1. کفن و دفن:
اگر کسی میت کے کفن و دفن کا انتظام کرنے والا کوئی نہ ہو تو اس کے ترکہ میں سے مناسب انداز میں کفن و دفن کا انتظام کیا جائے گا۔
2. ادائیگی قرض:
میت کے ذمے جتنا قرض ہو اسے ادا کیا جائے، خواہ ادائیگی میں تمام ترکہ صرف ہو جائے۔
جمہور کے نزدیک اللہ تعالیٰ کا قرض ادا کرنا بھی ضروری ہے، جیسے حج، زکوٰۃ، کفارہ، نذر وغیرہ۔ کیونکہ ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: میری والدہ وفات پا گئی ہیں اور ان کے ذمے ایک مہینے کے روزے ہیں، کیا میں ان کی طرف سے ادا کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جی ہاں، اللہ کا قرض زیادہ حقدار ہے کہ اسے ادا کیا جائے۔ (صحیح البخاری، کتاب الجنائز، حدیث: 1953)
❀ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
نفس المؤمن معلقة بدينه حتى يقضى عنه
مومن کی جان اس کے قرض سے لٹکی رہتی ہے جب تک اسے ادا نہ کیا جائے۔
(جامع الترمذی، کتاب الجنائز، باب أن نفس المؤمن معلقة، حدیث: 1078، 1079؛ مسند احمد، 2/440، 508)
3. وصیت:
قرآن مجید میں وصیت کو قرض پر مقدم تاکید کے لیے کیا گیا ہے کیونکہ وصیت پورا کرنے میں عموماً غفلت کی جاتی ہے۔ قرض کا مقدم ہونا حدیث سے ثابت ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ تم آیت میں پڑھتے ہو من بعد وصية توصون بها أو دين حالانکہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے وصیت سے پہلے قرض کی ادائیگی کا فیصلہ کیا ہے۔
(جامع الترمذي حديث: 2122 )

میت کی جائز وصیت کو پورا کیا جائے۔ جائز وصیت کی تین شرطیں ہیں:
➊ ادائیگی قرض کے بعد تہائی حصہ یا اس سے کم کی وصیت ہو۔ جیسا کہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے سوال کیا:
أفأتصدق بالثلثين؟ قال: لا، قال: فبالشطر؟ قال: لا، قال: فالثلث؟ قال: الثلث والثلث كثير
کیا میں اپنے دو تہائی مال کا صدقہ کر دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں۔ انہوں نے کہا: آدھے حصے کا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں۔ انہوں نے کہا: تہائی مال کا صدقہ کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تہائی کا کر دے، لیکن تہائی حصہ بھی زیادہ معلوم ہوتا ہے۔
(صحیح البخاری، کتاب مناقب الأنصار، باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم: اللهم امض لأصحابی ہجرتهم، حدیث: 3936؛ سنن ابی داود، کتاب الوصایا، باب ما جاء فی ما یجوز للموصی فی مالہ، حدیث: 2864؛ جامع الترمذی، کتاب الوصایا، باب ما جاء لا وصیة لوارث، حدیث: 2120)
➋ ان ورثاء کے حق میں وصیت نہ کی جائے جو ترکہ میں سے حصہ لینے والے ہوں۔
❀ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إن الله قد أعطى كل ذي حق حقه فلا وصية لوارث
یقیناً اللہ تعالیٰ نے ہر حق دار کا حق مقرر کر دیا ہے، اب کسی وارث کے لیے وصیت کرنا جائز نہیں ہے۔
(سنن ابی داود، کتاب البیوع، باب فی تضمین العادیة، حدیث: 3565؛ جامع الترمذی، کتاب الوصایا، باب ما جاء لا وصیة لوارث، حدیث: 2120)
➌ کسی حرام کام کی وصیت نہ کی جائے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَإِنْ جَاهَدَاكَ عَلَىٰ أَنْ تُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا
(سورۃ لقمان 31:15)
اور اگر وہ دونوں (ماں باپ) تجھ پر زور دیں کہ تو میرے ساتھ اسے شریک کرے جس کا تجھے علم نہ ہو تو ان کا کہنا نہ ماننا۔
❀ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا طاعة فى المعصية إنما الطاعة فى المعروف
نافرمانی کے کاموں میں اطاعت نہیں ہے، اطاعت تو صرف نیکی کے کاموں میں ہے۔
(صحیح البخاری، کتاب أخبار الآحاد، باب ما جاء فی إجازة الخبر الواحد الصادق، حدیث: 7257)
4. ورثاء میں تقسیم:
مذکورہ مراحل طے کرنے کے بعد باقی ماندہ ترکہ ورثاء میں ان کے حصوں کے مطابق تقسیم کیا جائے گا۔ پہلے اصحاب فرائض اور پھر عصبات کو دیا جائے گا، اور ان کی عدم موجودگی میں ذوالارحام کو دیا جائے گا۔
نوٹ:
اگر کسی قسم کا وارث نہ ہو تو ترکہ اسلامی حکومت کے بیت المال میں جمع ہو جائے گا۔ اگر شرعی بیت المال کا نظام نہ ہو تو جمہور علماء کے نزدیک میت کے ان غریب رشتہ داروں کو دیا جائے گا جو شرعی وارث نہیں ہیں۔ (واللہ اعلم)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے