سوال
اگر گندم کی کٹائی میں دو یا تین ماہ کی تاخیر ہو لیکن کٹائی سے پہلے آدھی قیمت لے کر مالک کسی کو گندم دینے کا وعدہ کرے تو اس کا شریعتِ مطہرہ میں کیا حکم ہے؟ کیا یہ کام رسول اللہ ﷺ کے اس فرمان:
((لاتبع ماليس عندك.))
کے مخالف تو نہیں ہوگا؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ معاملہ شرعاً بیع سلم (اہلِ حجاز کی لغت میں "بیع سلف”) کی صورت ہے۔ اس کے درست ہونے کے لیے چند شرائط لازمی ہیں جن کا اہتمام یقینی طور پر کرنا ضروری ہے۔ مثلاً:
◈ فروخت کی جانے والی جنس کا مقرر اور واضح ہونا
◈ یہ متعین ہونا کہ وہ چیز کب ادا کی جائے گی (یعنی مدت مقرر ہو)
◈ قیمت اور وزن کا طے ہونا
◈ جنس کی مقدار اور قیمت کا حساب واضح طور پر کر کے پوری قیمت بیع کے وقت مجلس میں نقد ادا کرنا
یہ سب شرائط احادیث سے ثابت ہیں۔
حدیث سے دلیل
بلوغ المرام میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:
جب نبی کریم ﷺ مدینہ منورہ تشریف لائے تو ہم باغوں کے پھلوں کو بیع سلم کے طور پر بیچا کرتے تھے جس کی مدت ایک سال، دو سال یا تین سال مقرر کی جاتی تھی۔
آپ ﷺ نے فرمایا:
((فليسلف فى كيل معلوم ووزن معلوم إلى أجل معلوم.)) (متفق عليه)
"یعنی جب بیع سلم کرو تو ناپ تول اور مدتِ ادائیگی مقرر ہونی چاہیے۔”
اسی طرح ابو داود وغیرہ میں ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم فرماتے ہیں:
((إن كنا نسلف على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبى بكر وعمر فى الحنطة والشعير والتمر والزبيب.))
(ابو داود، كتاب البيوع، باب في السلف، رقم الحديث: 3463)
"ہم نبی اکرم ﷺ کے عہدِ مبارک میں اور عہدِ صدیقی و عہدِ فاروقی رضی اللہ عنہما میں گندم، جو، کھجور اور کشمش میں بیع سلم کیا کرتے تھے۔”
اور دوسری روایت میں یہ بھی ہے کہ:
"جن لوگوں کو ہم قیمت دیتے تھے، ان کے پاس یہ اجناس ہم دیکھتے بھی نہ تھے۔”
بیع سلم کا رواج
ان دلائل سے یہ معلوم ہوا کہ:
◈ ضرورت مند لوگ مالداروں سے
◈ اور مالدار تاجر یا سوداگر کسانوں اور زمینداروں سے
عہدِ نبوی ﷺ اور عہدِ خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم میں بیع سلم عام طور پر کیا کرتے تھے۔
(ماخوذ از: اخبار تنظیم اہل حدیث، 14 اکتوبر)
بعض اشکالات کا جواب
الاعتصام میں مفتی صاحب نے کہا ہے کہ:
"اگر لینے والا مجبور ہو یا لاچار ہو کہ نہ لے سکتا ہو تو پھر بیع سلم جائز نہیں۔”
اس بات کو مولانا حصاروی صاحب نے رد کیا ہے۔ تاہم کسی حد تک یہ بات درست لگتی ہے کیونکہ ہمارے ملک میں اکثر یہ رواج پایا جاتا ہے کہ:
◈ کوئی غریب شخص پیسوں کی سخت ضرورت میں ہوتا ہے
◈ اس کے پاس زمین بھی ہوتی ہے
◈ مگر خریدار اس کی مجبوری کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں
◈ وہ اسے مجبور کرتے ہیں کہ: "تم اتنی جنس ہمیں بیچو، پھر ہم تمہیں پیسے دیں گے”
◈ اور وہ مجبور ہو کر مان لیتا ہے
◈ اس پر وہ لوگ چلتے ریٹ سے بہت کم قیمت پر خریداری کرتے ہیں
یہ صورت بلاشبہ ظلم ہے۔
صحیح صورت کیا ہے؟
◈ اگر غریب کی مجبوری اور لاچاری سے ناجائز فائدہ نہ اٹھایا جائے تو یہ معاملہ بالکل درست ہے۔
◈ البتہ قیمت پوری دی جانی چاہیے۔
جہاں تک رسول اللہ ﷺ کے فرمان ((لاتبع ماليس عندك.)) کا تعلق ہے تو یہ حکم جنس کے علاوہ دوسری چیزوں کے متعلق ہے۔
◈ امام ابن سیرین کا قول ہے کہ: "اگر اناج سٹوں (گوداموں) میں ہو تو اسے بیچنا جائز نہیں۔”
◈ لیکن یہ معاملہ بیع سلم کی دوسری صورت ہے۔
◈ بیع سلم میں یہ نہیں کہا جاتا کہ: "میں تمہیں فلاں زمین سے گندم بیچتا ہوں”
◈ بلکہ محض پیسوں کے عوض ایک جنس بیچ دی جاتی ہے جو مقررہ مدت پر ادا کی جائے گی
◈ بعد میں فروخت کنندہ چاہے اپنی زمین سے دے یا کہیں اور سے خرید کر ادا کرے
◈ یہ معاملہ درست ہے اور ابن سیرین کے قول کے مخالف نہیں۔
ہاں! یہ صحیح ہے کہ اگر اناج کو سٹوں میں موجود دیکھ کر اشارے سے بیچا جائے تو وہ درست نہیں۔
نتیجہ
امید ہے کہ اس وضاحت سے آپ کے سوال کا جواب کسی حد تک حل ہو چکا ہوگا۔
ھذا ما عندی واللہ أعلم بالصواب