سوال
ایک شخص جو خود کو اہلحدیث کہتا ہے، اس نے اپنی ملکیت ایک ہندو کے سپرد نفع کے لئے دے دی ہے۔ وہ ہندو کاروبار کرتا ہے اور چونکہ ہندو سودی لین دین میں ملوث ہوتے ہیں، جب اس سے کہا جاتا ہے تو وہ یہ جواب دیتا ہے کہ:
"میں نے اسے سود لینے کے لئے تو نہیں کہا اور نہ ہی میں خود سود کھاتا ہوں۔ اگرچہ رقم ہماری مشترکہ ہے لیکن میں تو صرف اپنا نفع لیتا ہوں جبکہ میرا شریک اس رقم کو سود پر بھی دیتا ہے۔”
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
✿ یہ بات واضح ہے کہ ہندو ہو یا مسلمان، ہر اس شخص کے ساتھ عقدِ شرکت کرنا ناجائز ہے جو سود لیتا یا دیتا ہو۔
✿ چونکہ ہندو یقینی طور پر سودی لین دین کرتے ہیں، اس لئے ان کے ساتھ شرکت کا معاہدہ شرعاً سراسر ناجائز ہے۔
✿ سود لینے والا، سود دینے والا، سودی معاہدے کو لکھنے والا اور سودی کاروبار پر گواہی دینے والا، سب گناہ میں برابر کے شریک ہیں۔
✿ رسول اکرم ﷺ نے ان سب پر لعنت فرمائی ہے۔
سود کی حرمت
✿ اس حدیثِ شریف سے یہ معلوم ہوا کہ سود کسی بھی شکل میں جائز نہیں۔
✿ یہاں تک کہ سودی کاروبار کا صرف کاتب بھی ملعون ہے، حالانکہ وہ نہ اس معاہدے کا فریق ہے اور نہ اسے اس سے کوئی نفع حاصل ہوتا ہے۔
✿ جب محض کتابت اور گواہی دینے والوں پر لعنت کی گئی ہے تو سوچنے کا مقام ہے کہ سودی رقم میں شریک ہونے والا کس طرح بری الذمہ ہوسکتا ہے؟
اگر یہ بات جائز مان لی جائے کہ:
"چونکہ ہندو اپنے طریقے سے سود لیتا ہے اور میں صرف اپنا نفع لیتا ہوں”
تو پھر یہ حیلہ سب کو اختیار ہو جائے گا۔ لوگ اپنی دکانوں پر ہندو ملازم رکھ کر خود گھر بیٹھے سودی نفع کمائیں گے اور کہیں گے:
"ہم نے کب سود لینے کو کہا ہے؟”
اگر اس طرح کے حیلے جائز مان لئے جائیں تو سود کی حرمت کا حکم ہی بے معنی ہو جائے گا۔
قرآنِ کریم سے مثال
اگر حیلوں کا دروازہ کھلا چھوڑ دیا جائے تو پھر وہی حالت پیدا ہوگی جو بنی اسرائیل کے ساتھ پیش آئی۔
✿ انہیں ہفتہ کے دن شکار سے منع کیا گیا تھا۔
✿ انہوں نے ہفتے کے دن شکار تو نہ کیا مگر مچھلیوں کو واپس جانے سے روک لیا اور اتوار کے دن شکار کر لیا۔
✿ درحقیقت انہوں نے اسی ممنوعہ عمل کو دوسرے طریقے سے اختیار کیا، اس لئے قرآن نے ان پر ملامت کی۔
نتیجہ
✿ جس فعل سے منع کیا گیا ہے، وہ خود کرنا یا دوسرے سے کروانا، دونوں برابر ہیں۔
✿ مثال کے طور پر ناحق قتل کرنا ناجائز ہے۔ اگر کوئی شخص خود قتل نہ کرے بلکہ کسی کو رقم دے کر قتل کروائے تو شرعاً وہ خود قاتل ہی شمار ہوگا۔
✿ بالکل اسی طرح سود کسی بھی شکل میں جائز نہیں، خواہ براہِ راست لیا جائے یا دوسرے کے ذریعے حاصل کیا جائے۔
حدیث مبارکہ
’’نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ سود کا گناہ 70 حصے ہے، اس کا سب سے کم حصہ یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی والدہ کے ساتھ زنا کرے۔‘‘ (ابن ماجہ)
ہندو کے ساتھ عقدِ شرکت
✿ ہندو کے ساتھ شرکت کا معاہدہ بھی کتبِ فقہ میں ناجائز قرار دیا گیا ہے۔
✿ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہندو بعض افعال کو جائز سمجھ کر کرتا ہے، جو مسلمان کے لئے ناجائز ہیں۔
خلاصہ
لہٰذا ہندو یا کسی بھی سودی لین دین کرنے والے شخص کے ساتھ شرکت کرنا ناجائز ہے۔ سود کا تعلق جس درجے میں بھی ہو، وہ لعنت اور گناہ کا باعث ہے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب