سود کو جائز سمجھنے والے امام کے پیچھے نماز کا حکم
ماخوذ : فتاویٰ راشدیہ، صفحہ نمبر 470

سوال

ایک شخص جو سود کو جائز کہتا ہے (جس کا تذکرہ پہلے سوال میں کیا جا چکا ہے)، کیا اس کی اقتداء میں نماز ہوسکتی ہے یا نہیں؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ بات اچھی طرح معلوم ہونی چاہئے کہ سود کی حرمت قطعی ہے اور اس پر اجماع ہے۔
لہٰذا جو شخص سود کو عمداً اور ہر حالت میں حلال و جائز سمجھے گا، وہ بلا شبہ کافر ہے۔
پھر جو شخص کافر (یعنی اسلام سے خارج) ہے، اس کے پیچھے نماز پڑھنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، جیسا کہ ظاہر ہے۔

اضطراری حالت کی وضاحت

✿ مذکورہ صورت میں، یعنی وہ شخص جو صرف اضطراری حالت میں سود کے استعمال کو جائز سمجھتا ہے، اس کی اقتداء میں نماز پڑھنا جائز ہے۔
✿ اس لیے کہ وہ شخص سود کو ہر حال میں جائز نہیں سمجھتا، بلکہ صرف اضطراری حالت میں جائز قرار دیتا ہے۔
✿ جیسا کہ پہلے سوال کے جواب میں تفصیل سے وضاحت کی گئی ہے کہ سود اضطراری حالت میں جائز ہے، کیونکہ اضطراری صورت کو عام حکم سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے۔
✿ لہٰذا ایسے شخص کو کافر نہیں کہا جائے گا۔
✿ بشرطیکہ وہ شخص صحیح العقیدہ ہو، اس کے پیچھے نماز پڑھنا درست ہے۔
✿ یہ مسئلہ اسے امامت سے خارج نہیں کرتا۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے