فليس منا کا مفہوم: کیا یہ امت سے خارج ہونے کے معنی میں ہے؟
ماخوذ : فتاویٰ راشدیہ صفحہ نمبر 468

سوال

حدیث میں آیا ہے: "جو دھوکہ دیتا ہے فليس منا”، اور اسی طرح آیا ہے: "جو چھوٹوں پر رحم نہیں کرتا اور بڑوں کا ادب نہیں کرتا فليس منا”۔ اس کا کیا مطلب ہے؟ کیا اس سے مراد یہ ہے کہ وہ شخص امت محمدیہ ﷺ سے خارج ہو کر کافر ہو جائے گا یا اس کا کوئی اور مفہوم ہے؟ مہربانی فرما کر قرآن و حدیث کی روشنی میں وضاحت فرمائیں۔

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

◈ دھوکہ اور فریب دینے والے، چھوٹوں پر رحم نہ کرنے والے اور بڑوں کی عزت و توقیر نہ کرنے والوں کے متعلق سخت وعیدیں احادیث مبارکہ میں آئی ہیں۔
◈ لیکن یہ الفاظ نہیں ملتے کہ "فهو ليس من أمتى” (یعنی وہ میری امت میں سے نہیں)، بلکہ احادیث میں "فليس منا” کے الفاظ وارد ہوئے ہیں، جس کا مطلب ہے: "وہ ہمارے بتائے ہوئے راستے پر نہیں ہے”۔
◈ اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ امت محمدیہ سے خارج ہو گیا یا کافر بن گیا۔ اگر ایسا سمجھا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ایسے اعمال کرنے والا کافر ہو گیا اور جہنم سے کبھی بھی نہ نکل سکے گا۔

قرآن و سنت کی روشنی میں وضاحت

◈ قرآن مجید فرماتا ہے کہ مشرک کے علاوہ باقی کبیرہ گناہوں کو اللہ تعالیٰ چاہے تو ابتداء ہی میں معاف کر دے یا آخر کار معاف فرما دے۔
◈ اگر "فليس منا” کا مطلب یہ لیا جائے کہ وہ امت سے خارج ہو گیا اور کافر ہو چکا ہے، تو پھر اس کی مغفرت کا کوئی امکان باقی نہیں رہتا، جبکہ یہ بات نصوصِ قرآنیہ اور صحیح احادیث کے خلاف ہے۔

"فليس منا” کا اصل مطلب

"فليس منا” کا مطلب یہ ہے کہ وہ ہمارے شایانِ شان اور طریقے پر چلنے والا نہیں ہے۔
◈ اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے ایک نالائق اور نافرمان بچے کو اس کا والد کہے: "تو میرا بیٹا نہیں ہے”۔
➤ اس جملے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ وہ حقیقی اولاد سے خارج ہے۔
➤ بلکہ اس سے مراد یہ ہوتا ہے کہ: "تو نالائق ہے، اگر میرا فرمانبردار بیٹا ہوتا تو یوں نہ کرتا۔”
◈ اس طرح کے کلمات ہر زبان میں زور پیدا کرنے اور اہمیت واضح کرنے کے لیے بولے جاتے ہیں۔ یہ مجازی، استعارہ یا تشبیہ کے طور پر سمجھے جاتے ہیں، اور اس کا صحیح مفہوم اہلِ زبان موقع و محل کے اعتبار سے سمجھتے ہیں۔

دیگر احادیث سے وضاحت

◈ حسد کرنے والے کے متعلق صحیح حدیث میں آیا ہے:
"حسد انسان کی نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جس طرح آگ لکڑیوں کو کھا جاتی ہے۔”

◈ صحیح بخاری میں مخلوق کو تکلیف دینے والے کے متعلق فرمایا گیا:
"مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے لوگ محفوظ رہیں۔”
➤ اور یہ بھی فرمایا: "وہ شخص کامل مومن نہیں جس کی شرارتوں سے اس کا پڑوسی محفوظ نہ ہو۔”

اعمال اور حقوق العباد کا معاملہ

◈ اگر کسی شخص نے نماز وغیرہ درست طریقے سے اللہ تعالیٰ کے حکم کی نیت سے ادا کی ہے تو وہ ضائع نہیں ہوں گی۔
◈ اصل مسئلہ یہ ہے کہ اگر اس نے کسی کے ساتھ ظلم یا زیادتی کی ہے اور دنیا میں معافی حاصل نہیں کی تو آخرت میں یوں ہوگا:
➤ مظلوموں کو اس کے نیک اعمال کے بدلے دیے جائیں گے۔
➤ اگر نیکیوں کی تقسیم کے بعد کچھ باقی رہ گیا تو وہ نجات پا جائے گا۔
➤ اگر ساری نیکیاں ختم ہو گئیں اور مظلوموں کے حقوق باقی رہ گئے تو وہ جہنم میں داخل کر دیا جائے گا۔
◈ لیکن چونکہ وہ ایمان اور توحید پر قائم رہا ہوگا، اس لیے بالآخر اللہ تعالیٰ کے خاص فضل و کرم سے جہنم سے نجات پائے گا۔
◈ یہی بات صحیح احادیث سے ثابت ہے۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے