آسمان و زمین کو بھر دینے والی حمد کا مفہوم
ماخوذ: فتاوی امن پوری از شیخ غلام مصطفی ظہیر امن پوری

سوال:

سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع سے سر اٹھانے کے بعد یہ دعا پڑھتے تھے:
اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ، مِلْءُ السَّمَاوَاتِ وَمِلْءُ الْأَرْضِ، وَمَا بَيْنَهُمَا، وَمِلْءُ مَا شِئْتَ مِنْ شَيْءٍ بَعْدُ، أَهْلَ الثَّنَاءِ وَالْمَجْدِ، لَا مَانِعَ لِمَا أَعْطَيْتَ، وَلَا مُعْطِيَ لِمَا مَنَعْتَ، وَلَا يَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْكَ الْجَدُّ.
اے اللہ! ہمارے رب! تیری ذات تمام تر حمد کی مستحق ہے، اتنی حمد جو زمین و آسمان کو بھر دے اور جس کے بارے تو چاہتا ہو کہ یہ بھر جائے اسے بھی بھر دے۔ اے تعریف و بزرگی کے لائق! جسے تو عطا کرے کوئی روک نہیں سکتا، جس سے روک لے کوئی دے نہیں سکتا، تیرے مقابلہ میں کسی امیر کی امیری اس کے کام نہیں آسکتی۔
(صحيح مسلم: 478)
آسمانوں اور زمین کے بھرنے سے کیا مراد ہے؟

جواب:

اس کے دو معانی ہو سکتے ہیں:
1. آسمان اور زمین بھرنے سے مراد کثرت اور زیادتی ہے، یہ مجاز ہے۔
سیدنا ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
الله عز وجل يقول: من لقيني بقراب الأرض خطيئة لا يشرك بي شيئا لقيته بمثلها مغفرة.
جو زمین بھرنے کے برابر خطائیں لے کر میرے پاس آئے اور اس نے ذرہ برابر بھی میرے ساتھ شرک نہ کیا ہو، تو میں اتنی ہی مغفرت کے ساتھ اس سے ملاقات کروں گا۔
(صحيح مسلم: 2687)
2. زمین و آسمان بھرنے سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی حمد پر مشتمل کلمات کو صحائف پر لکھا جائے اور وہ صحائف اتنے ہوں کہ ان سے زمین و آسمانوں کا خلا بھر جائے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے