سوال:
رائے سے فتویٰ دینا کیسا ہے؟
جواب:
فتویٰ دینا انتہائی محتاط ذمہ داری ہے۔ مفتی کے لیے ضروری ہے کہ اس کے پاس قرآن، حدیث، آثار صحابہ اور دیگر علوم کا وافر علم ہو۔ اگر کوئی مسئلہ درپیش ہو، جس کا حل قرآن، حدیث، اجماع یا آثار میں کوشش کے باوجود نہ ملے، تو وہ اپنی رائے اور اجتہاد سے فتویٰ دے سکتا ہے۔ مگر جیسے ہی اسے کتاب و سنت کی کوئی نص معلوم ہو، تو اپنی رائے سے رجوع کرے۔ یہی اہل حق کا شیوہ ہے۔
❀ ہریل بن شرحبیل رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
سئل أبو موسى عن بنت وابنة ابن وأخت، فقال: للبنت النصف، وللأخت النصف، وأت ابن مسعود، فسيتابعني، فسئل ابن مسعود، وأخبر بقول أبى موسى فقال: لقد ضللت إذا وما أنا من المهتدين، أقضي فيها بما قضى النبى صلى الله عليه وسلم: للابنة النصف، ولابنة ابن السدس تكملة الثلثين، وما بقي فللأخت، فأتينا أبا موسى فأخبرناه بقول ابن مسعود، فقال: لا تسألوني ما دام هذا الحبر فيكم.
سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے بیٹی، پوتی اور بہن کی وراثت میں حصے کے بارے میں سوال ہوا، تو انہوں نے فرمایا: نصف بیٹی کے لیے اور نصف بہن کے لیے۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے پوچھیں، وہ بھی میری موافقت کریں گے۔ جب سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا اور ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کا جواب بتایا گیا، تو انہوں نے فرمایا: میں گمراہ ہو جاؤں گا اور ہدایت یافتگان میں نہ رہوں گا۔ میں اس بارے وہی فیصلہ دوں گا، جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ سنایا تھا: بیٹی کا نصف، پوتی کا دو تہائی کو پورا کرتے ہوئے چھٹا حصہ، اور جو باقی بچ جائے وہ بہن کا حصہ ہے۔ پھر ہم ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا فتویٰ سنایا، تو انہوں نے فرمایا: جب تک آپ میں یہ علم کا سمندر موجود ہے، مجھ سے سوال نہ پوچھا کریں۔
(صحيح البخاري: 6736)
❀ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (852ھ) فرماتے ہیں:
اس حدیث میں سیدنا ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ کے فتویٰ میں احتیاط کا ذکر ہے، کیونکہ انہوں نے اپنے سے بڑے عالم کی طرف رہنمائی کر دی۔ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے فتویٰ میں فقہا کے مابین کوئی اختلاف نہیں۔ سیدنا ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ کے جواب میں اشارہ ہے کہ انہوں نے اپنے مؤقف سے رجوع کر لیا تھا۔
(فتح الباري: 12/18)
معلوم ہوا کہ فتویٰ میں غلطی بڑے سے بڑے عالم سے بھی ہو سکتی ہے، بڑائی اسی میں ہے کہ غلطی واضح ہونے پر حق کی طرف رجوع کر لیا جائے۔