سوال:
نماز کسوف اور خسوف میں قرآت اونچی کی جائے گی یا آہستہ؟
جواب:
نماز کسوف و خسوف میں بہتر یہی ہے کہ قرآت جہری کی جائے، البتہ آہستہ قرآت بھی ثابت ہے۔
❀ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں:
إن النبى صلى الله عليه وسلم جهر فى صلاة الخسوف بقرائته، فصلى أربع ركعات فى ركعتين وأربع سجدات.
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز خسوف میں جہری قرآت کی، دو رکعتوں میں چار رکوع اور چار سجدے کیے۔
(صحيح البخاري: 1065، صحيح مسلم: 901)
❀ سیدنا جابر بن سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
صلى بنا رسول الله صلى الله عليه وسلم فى كسوف الشمس ركعتين، لا نسمع له فيهما صوتا.
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سورج گرہن میں دو رکعت نماز پڑھائی، ان دونوں رکعتوں میں ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز نہیں سنتے تھے۔
(مسند الإمام أحمد: 4/16، سنن أبي داود: 1184، سنن النسائي: 1484، سنن الترمذي: 562، وقال: حسن صحيح غريب، سنن ابن ماجه: 1264، وسنده حسن)
اس حدیث کو امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ (1397) اور امام ابن حبان رحمہ اللہ (597) نے صحیح کہا ہے۔ امام حاکم رحمہ اللہ (1/329) نے اسے بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح قرار دیا ہے اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔
حافظ نووی رحمہ اللہ نے سند کو حسن کہا ہے۔
(خلاصة الأحكام: 2/891)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے سند کو قوي کہا ہے۔
(نتائج الأفكار، ص: 412)
❀ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں:
انخسفت الشمس علىٰ عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، فصلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقام قياما طويلا نحوا من قرائة سورة البقرة.
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں سورج گرہن ہو گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی، سورة البقرة کی قرآت کے برابر لمبا قیام کیا۔
(صحيح البخاري: 1052، صحيح مسلم: 907)
❀ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں:
كسفت الشمس علىٰ عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، فخرج رسول الله صلى الله عليه وسلم، فصلى بالناس، فقام فحزرت قرائته، فرأيت أنه قرأ بسورة البقرة، ثم سجد سجدتين، ثم قام فأطال القرائة، فحزرت قرائته أنه قرأ بسورة آل عمران.
عہد رسالت میں سورج گرہن ہوا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے، لوگوں کو نماز پڑھائی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام کیا، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرآت کا اندازہ لگایا، میرے خیال میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورة البقرة کی تلاوت فرمائی، پھر دو سجدے کیے، بعد میں کھڑے ہو کر لمبی قرآت کی، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرآت کا اندازہ لگایا، میرے خیال میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورة آل عمران کی تلاوت فرمائی۔
(سنن أبي داود: 1187، سنده حسن)
اسے امام حاکم رحمہ اللہ (1/334) نے مسلم کی شرط پر صحیح کہا ہے۔