سوال:
سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض الموت میں صدیق اکبر رضی اللہ عنہ جماعت کروا رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم صفیں چیرتے آگے آئے، سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے پیچھے ہٹنا چاہا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ کیا کہ اپنی جگہ پر کھڑے رہیں:
رفع أبو بكر رضى الله عنه يديه، فحمد الله علىٰ ما أمره به رسول الله صلى الله عليه وسلم من ذلك، ثم استأخر أبو بكر حتى استوى فى الصف، وتقدم رسول الله صلى الله عليه وسلم، فصلى.
سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے ہاتھ اٹھائے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو آپ کو نماز پڑھانے کا حکم فرمایا تھا، اس پر اللہ کی حمد بیان کی۔ پھر سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ پیچھے ہٹے اور صف میں کھڑے ہو گئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آگے تشریف لے گئے اور نماز پڑھائی۔
(صحيح البخاري: 684، صحيح مسلم: 421)
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کو مصلیٰ پر کھڑے رہنے کا اشارہ کیا، تو وہ پیچھے کیوں ہٹے؟
جواب:
سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ جانتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو اشارہ کیا ہے، وہ ان کی عزت و تکریم کے لیے تھا، یہ اشارہ وجوبی نہیں تھا، اس لیے سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں آپ سے آگے کھڑے ہونا مناسب نہ سمجھا۔
نماز کے بعد جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا:
يا أبا بكر ما منعك أن تثبت إذ أمرتك؟ فقال أبو بكر: ما كان لابن أبى قحافة أن يصلي بين يدي رسول الله صلى الله عليه وسلم.
اے ابو بکر! جب میں نے آپ کو کھڑے رہنے کو کہا، تو آپ نے ایسا کیوں نہ کیا؟ تو سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: ابو قحافہ کے بیٹے سے یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آگے کھڑا ہو کر نماز پڑھائے۔
(صحيح البخاري: 684، صحيح مسلم: 421)
ثابت ہوا کہ سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے ادب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے پیچھے ہٹنا پسند کیا۔ اسی طرح کا ادب سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے بھی کیا تھا۔
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ صلح حدیبیہ کا قصہ بیان کرتے ہیں:
لما كتبوا الكتاب، كتبوا: هذا ما قاضى عليه محمد رسول الله، قالوا: لا نقر لك بهذا، لو نعلم أنك رسول الله ما منعناك شيئا، ولكن أنت محمد بن عبد الله، فقال: أنا رسول الله، وأنا محمد بن عبد الله، ثم قال لعلي بن أبى طالب رضي الله عنه: امح رسول الله، قال علي: لا والله لا أمحوك أبدا، فأخذ رسول الله صلى الله عليه وسلم الكتاب، وليس يحسن يكتب، فكتب: هذا ما قاضى عليه محمد بن عبد الله.
جب مسلمانوں اور مشرکین نے معاہدہ لکھا تو صحابہ کرام نے لکھ دیا: یہ وہ معاہدہ ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہے۔ اس پر مشرکین نے کہا: ہم اسے تسلیم نہیں کرتے، کیونکہ اگر ہم آپ کو اللہ کا رسول مانتے تو آپ کو مکہ سے نہ روکتے، آپ محمد بن عبد اللہ ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں اللہ کا رسول بھی ہوں اور عبد اللہ کا بیٹا بھی ہوں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا: رسول اللہ کا لفظ مٹا دو۔ انہوں نے عرض کیا: اللہ کی قسم! میں آپ کا نام کبھی نہیں مٹاؤں گا! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس تحریر کو پکڑا اور لکھ دیا: یہ وہ معاہدہ ہے، جو محمد بن عبد اللہ نے کیا ہے۔
(صحيح البخاري: 4251)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
امح رسول الله فقال علي: والله لا أمحاه أبدا، قال: فأرنيه، قال: فأراه إياه فمحاه النبى صلى الله عليه وسلم بيده.
رسول اللہ کا لفظ مٹا دیں۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اللہ کی قسم! میں اسے کبھی نہیں مٹاؤں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے یہ لفظ دکھائیں۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے وہ الفاظ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھائے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنے ہاتھ مبارک سے مٹا دیا۔
(صحيح البخاري: 3184، صحيح مسلم: 1783)
کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے حکم رسول کی مخالفت کی؟ ہرگز نہیں۔ یہ حدیث سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ادب رسول اور محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دلیل ہے، نہ کہ مخالفت رسول کی۔ بعینہ سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ بھی ادب رسول کی وجہ سے اشارے کے باوجود پیچھے ہٹ گئے، یہ حدیث بھی سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی تعظیم رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر دلیل ہے۔