یعفور گدھے کی روایت کا تحقیقی جائزہ احادیث کی روشنی میں
ماخوذ: فتاوی امن پوری از شیخ غلام مصطفی ظہیر امن پوری

سوال:

درج ذیل روایت کی سند کیسی ہے؟
❀ سیدنا ابو منظور رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
لما فتح الله علىٰ نبيه صلى الله عليه وسلم خيبر أصابه من سهمه أربعة أزواج نعال وأربعة أزواج خفاف وعشرة أواقي ذهب وفضة وحمار أسود قال فكلم النبى صلى الله عليه وسلم الحمار فقال له: ما اسمك، قال: يزيد بن شهاب، أخرج الله من نسل جدي ستين حمارا كلهم لم يركبهم إلا نبي ولم يبق من نسل جدي غيري ولا من الأنبياء غيرك، أتوقعك أن تركبني وكنت قبلك لرجل من اليهود وكنت أعثر به عمدا وكان يجيع بطني ويضرب ظهري، فقال له النبى صلى الله عليه وسلم: قد سميتك يعفورا، يا يعفور، قال: لبيك، قال: أتشتهي الإناث، قال: لا، وكان النبى صلى الله عليه وسلم يركبه فى حاجته، فإذا نزل عنه بعث به إلىٰ باب الرجل، فيأتي الباب فيقرعه برأسه، فإذا خرج إلىٰ صاحب الدار أومأ إليه أن أجب رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: فلما قبض النبى صلى الله عليه وسلم جاء إلىٰ بئر كانت لأبي الهيثم بن التيهان فتردىٰ فيها فصارت قبره جزعا منه علىٰ رسول الله صلى الله عليه وسلم.
جب اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خیبر کی فتح عطا فرمائی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حصے میں چار جوڑے جوتے، چار جوڑے موزے، دس سونے چاندی کے اوقیے اور ایک سیاہ گدھا آیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے گدھے سے کلام کیا اور فرمایا: تمہارا نام کیا ہے؟ کہنے لگا: یزید بن شہاب، اللہ تعالیٰ نے میرے دادا کی نسل سے ساٹھ گدھے پیدا کیے، ہر ایک پر صرف نبی ہی سوار ہوا، اب میرے دادا کی نسل سے صرف میں ہی باقی رہ گیا ہوں اور انبیاء میں سے صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم باقی رہ گئے ہیں، مجھے امید ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میری سواری کریں گے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے میں ایک یہودی کے پاس تھا، میں اسے جان بوجھ کر گرا دیتا تھا، وہ مجھے بھوکا رکھتا تھا اور میری پیٹھ پر مارتا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس گدھے سے کہا: میں نے تمہارا نام یعفور رکھ دیا ہے، اے یعفور! کہنے لگا: لبیک، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا تمہیں گدھی سے جفتی کرنے کی خواہش ہے؟ کہنے لگا: نہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی ضروری کام سے جاتے، تو اس پر سواری کرتے تھے، پھر جب اس گدھے سے نیچے اترتے، تو اسے اس شخص کے دروازے کی طرف بھیجتے، گدھا دروازے کے پاس آتا اور اپنے سر سے دروازے پر دستک دیتا، جب گھر کا مالک باہر نکلتا، تو اسے اشارے سے کہتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سنیں۔ پھر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی، تو وہ گدھا ابو ہیثم بن تَیِّہان رضی اللہ عنہ کے کنویں پر آیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے غم میں کنویں میں چھلانگ لگا دی، وہ کنواں ہی اس کی قبر بن گیا۔
(كتاب المجروحين لابن حبان: 308/2-309)

جواب:

جھوٹی روایت ہے۔ محمد بن مزید ابو جعفر کذاب و وضاع ہے۔
❀ امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
لا يجوز الاحتجاج بهذا الشيخ.
اس شخص سے حجت پکڑنا جائز نہیں۔
(كتاب المجروحين: 309/2)
❀ اس روایت کے بارے میں امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
هذا حديث لا أصل له وإسناده ليس بشيء.
یہ حدیث بے اصل ہے، اس کی سند کچھ بھی نہیں۔
❀ حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
هذا حديث موضوع فلعن الله واضعه فإنه لم يقصد إلا القدح فى الإسلام، والاستهزاء به.
یہ من گھڑت حدیث ہے، اس کے گھڑنے والے پر اللہ کی لعنت ہو، اس کا مقصد اسلام کو بدنام کرنا اور اس کا استہزاء کرنا ہے۔
(الموضوعات: 294/1)
حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اس روایت کو باطل (جھوٹی) کہا ہے۔
(میزان الاعتدال: 34/4)
❀ حافظ ابو موسیٰ مدینی اصیبہانی رحمہ اللہ (581ھ) فرماتے ہیں:
هذا حديث منكر جدا إسنادا ومتنا، لا أحل لأحد أن يرويه عني إلا مع كلامي عليه.
یہ حدیث سند اور متن کے اعتبار سے سخت منکر ہے، میں کسی کے لیے جائز نہیں سمجھتا کہ وہ مجھ سے یہ حدیث نقل کرے، سوائے اس کے کہ وہ میرا اس حدیث پر ذکر کردہ کلام بھی نقل کرے۔
(أسد الغابة لابن الأثير : 298/6)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے