قرآن و حدیث کی روشنی میں إذا قرأ فأنصتوا الفاظ کی حقیقت
ماخوذ: فتاوی امن پوری از شیخ غلام مصطفی ظہیر امن پوری

سوال:

درج ذیل روایت کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إذا قرأ فأنصتوا
جب امام قرآت کرے تو آپ خاموش رہیں۔
(صحيح مسلم معلقاً، تحت الحديث: 404)

جواب:

یہ الفاظ غیر محفوظ ہیں۔ راوی کا وہم و تخلیط ہیں۔ علل حدیث کے کبار ائمہ ان الفاظ کو خطا قرار دیتے ہیں۔ بشرط صحت ان الفاظ کو فاتحہ کے بعد والی قرآت پر محمول کیا جائے گا۔
❀ امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ (233ھ) فرماتے ہیں:
ليس بشيء ولم يثبته ووهنه
یہ الفاظ بے اصل ہیں، (امام عباس دوری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ) امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ نے ان الفاظ کو ثابت قرار نہیں دیا، بلکہ انہیں ضعیف قرار دیا۔
(تاريخ الدوري: 455/3)
❀ امام ابو حاتم رحمہ اللہ (277ھ) فرماتے ہیں:
ليس هذه الكلمة بالمحفوظ، وهو من تخاليط ابن عجلان
یہ الفاظ محفوظ نہیں، بلکہ یہ ابن عجلان کا وہم ہے۔
(عِلَل الحديث: 465)
❀ امام ابو داود رحمہ اللہ (275ه) فرماتے ہیں:
هذه الزيادة وإذا قرأ فأنصتوا ليست بمحفوظة، الوهم عندنا من أبى خالد
یہ زیادت وإذا قرأ فأنصتوا محفوظ نہیں ہے، ہمارے مطابق یہ ابو خالد احمر کا وہم ہے۔
(سنن أبي داود، تحت الرقم: 604)
❀ امام نسائی رحمہ اللہ (303ھ) فرماتے ہیں:
لا نعلم أن أحدا تابع ابن عجلان، على قوله: وإذا قرأ فأنصتوا
ہم نہیں جانتے کہ کسی (ثقہ) نے وإذا قرأ فأنصتوا کے الفاظ نقل کرنے پر ابن عجلان کی متابعت کی ہو۔
(السنن الكبرى، تحت الرقم: 996)
❀ امام دارقطنی رحمہ اللہ (385ھ) فرماتے ہیں:
هذا الكلام ليس بمحفوظ فى هذا الحديث
اس حدیث میں یہ الفاظ محفوظ نہیں ہیں۔
(عِلَل الدارقطني: 187/8)
❀ نیز فرماتے ہیں:
في اجتماع أصحاب قتادة على خلاف التيمي دليل على وهمه والله أعلم
(روایت نقل کرنے میں) قتادہ رحمہ اللہ کے شاگردوں کا سلیمان تیمی کے خلاف اتفاق کر لینا اس بات کی دلیل ہے کہ تیمی کو وہم ہوا ہے، واللہ اعلم!
❀ امام مسلم رحمہ اللہ (261ھ) فرماتے ہیں:
ليس فى حديث أحد منهم
(قتادہ رحمہ اللہ کے شاگردوں میں سے تیمی کے علاوہ) کسی شاگرد کی حدیث میں یہ الفاظ نہیں ہیں۔
(الإلزامات والتتبع: 171/1)
❀ امام حاکم رحمہ اللہ (405ھ) فرماتے ہیں:
إن هذا الخبر وهم الراوي فيه، بلا خلاف أعرفه بين أهل النقل فيه
اس حدیث میں راوی کو وہم ہوا ہے، جہاں تک میں جانتا ہوں، اس بارے میں محدثین کا کوئی اختلاف نہیں۔
(صحيح مسلم، تحت الرقم: 404)
❀ حافظ بیہقی رحمہ اللہ (458ھ) فرماتے ہیں:
قد أجمع الحفاظ على خطأ هذه اللفظة فى الحديث، وأنها ليست بمحفوظة؛ يحيى بن معين، وأبو داود السجستاني، وأبو حاتم الرازي، وأبو على الحافظ، وعلي بن عمر الحافظ، وأبو عبد الله الحافظ
حفاظ حدیث کا اجماع ہے کہ حدیث میں یہ الفاظ خطا ہیں، نیز یہ الفاظ غیر محفوظ ہیں، ان محدثین میں امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ، امام ابو داود سجستانی رحمہ اللہ، امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ، امام ابو علی الحافظ رحمہ اللہ، امام حافظ علی بن عمر دارقطنی رحمہ اللہ اور امام ابو عبد اللہ حاکم رحمہ اللہ شامل ہیں۔
(معرفة السنن والآثار: 74/3)
❀ حافظ نووی رحمہ اللہ (676ھ) فرماتے ہیں:
قال جمهور الحفاظ: قوله: وإذا قرأ فأنصتوا ليست صحيحة عن النبى صلى الله عليه وسلم
جمہور حفاظ حدیث نے کہا ہے کہ وإذا قرأ فأنصتوا کے الفاظ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہیں۔
(خلاصة الأحكام: 376/1)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے