حاملہ عورت کی عدت: قرآن و حدیث کی روشنی میں واضح رہنمائی
ماخوذ: فتاوی امن پوری از شیخ غلام مصطفی ظہیر امن پوری

سوال:

حاملہ کا شوہر فوت ہوا، وہ آگے شادی کب کر سکتی ہے؟

جواب:

حاملہ کی عدت وضع حمل ہے۔ وضع حمل تک وہ آگے شادی نہیں کر سکتی۔
❀ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَن يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ
(سورة الطلاق: 4)
حاملہ عورتوں کی (طلاق یا وفات شوہر کی) عدت وضع حمل ہے۔
سیدہ سبیعہ بنت حارث رضی اللہ عنہا حاملہ تھیں، ان کے خاوند فوت ہو گئے۔ چند دنوں بعد ان کے ہاں بچے کی پیدائش ہوئی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو نیا نکاح کرنے کی اجازت دے دی۔
(صحيح البخاري: 5318، 6906، صحیح مسلم: 1485)
نیز دیکھیں: (صحيح البخاري: 5319، صحیح مسلم: 1484، صحيح البخاري: 5320)
❀ امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
العمل على هذا عند أكثر أهل العلم من أصحاب النبى صلى الله عليه وسلم وغيرهم: أن الحامل المتوفى عنها زوجها إذا وضعت فقد حل التزويج لها، وإن لم تكن انقضت عدتها، وهو قول سفيان الثوري، والشافعي، وأحمد، وإسحاق
اکثر اہل علم کا اسی حدیث پر عمل ہے، جن میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی شامل ہیں کہ جس عورت کا خاوند فوت ہو جائے اور وہ حاملہ ہو تو بچے کی ولادت کے بعد اس کے لیے نکاح کرنا جائز ہے، خواہ اس کی عدت کا عرصہ ابھی نہ گزرا ہو۔ سفیان ثوری رحمہ اللہ، امام شافعی رحمہ اللہ، امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اور امام اسحاق بن راہویہ رحمہ اللہ کا یہی مذہب ہے۔
(سنن الترمذي، تحت الحديث: 1193)
❀ نافع رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
إنه سئل عن المرأة يتوفى عنها زوجها وهى حامل؟ فقال عبد الله بن عمر: إذا وضعت حملها فقد حلت فأخبره رجل من الأنصار كان عنده أن عمر بن الخطاب قال: لو وضعت وزوجها على سريره لم يدفن بعد، لحلت
ایسی عورت کے بارے میں سوال ہوا، جو حاملہ ہو اور اس کا شوہر فوت ہو جائے؟ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جب وضع حمل ہو، تب اس کی عدت ختم ہو جائے گی۔ تو وہاں موجود ایک انصاری (صحابی) نے خبر دی کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگر حاملہ کا شوہر چارپائی پر ہی پڑا ہو، ابھی اسے دفن نہ کیا گیا ہو اور وضع حمل ہو جائے، تو اس کی عدت اسی وقت ختم ہو جائے گی۔
(موطأ الإمام مالك: 589/2، وسنده صحيح)
❀ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
إذا ولدت فقد حلت
حاملہ (کا خاوند فوت ہو جائے تو) اس کی عدت وضع حمل سے ختم ہو جاتی ہے۔
(موطأ الإمام مالك: 589/2، وسنده صحيح)
❀ ابو سلمہ بن عبد الرحمن رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
إذا وضعت ما فى بطنها، فقد حلت
حاملہ کی عدت وضع حمل پر ختم ہو جائے گی۔
(موطأ الإمام مالك: 590/2، وسنده صحيح)
❀ امام مالک بن انس رحمہ اللہ (179ھ) فرماتے ہیں:
هذا الأمر الذى لم يزل عليه أهل العلم عندنا
ہمارے (اہل مدینہ کے) ہاں ہمیشہ سے اسی پر فتویٰ ہے کہ وضع حمل سے عدت ختم ہو جاتی ہے۔
(موطأ الإمام مالك: 590/2)
❀ امام ابن منذر رحمہ اللہ (319ھ) فرماتے ہیں:
أجمعوا على أنها لو كانت حاملا فى وقت طلاق الزوج وهى غير عالمة بطلاقها، حتى وضعت، أن عدتها منقضية بوضع الحمل
فقہا کا اجماع ہے کہ اگر کسی عورت کو خاوند نے طلاق دی اور اس وقت وہ حاملہ تھی، مگر عورت کو طلاق کا علم نہ ہوا، یہاں تک کہ اس نے بچہ جنم دے دیا، تو وضع حمل کے ساتھ ہی اس کی عدت ختم ہو گئی۔
(الإجماع: 447، الأوسط: 534/9، الإشراف: 355/5، الإقناع: 324/1)
❀ امام ابو جعفر نحاس رحمہ اللہ (338ھ) فرماتے ہیں:
قد أجمع الجميع بلا خلاف بينهم أن رجلا لو توفي وترك امرأته حاملا فانقضت أربعة أشهر وعشر أنها لا تحل حتى تلد فعلم أن المقصود الولادة
سارے کے سارے اہل علم کا اجماع ہے، کسی کا اختلاف نہیں کہ اگر کوئی شخص فوت ہو اور اس کی بیوی حاملہ ہو اور چار ماہ دس دن گزر جائیں، تو اس کی عدت ختم نہ ہوگی، تا آنکہ وضع حمل ہو جائے، معلوم ہوا کہ (حاملہ کی عدت میں) اصل مقصود وضع حمل ہے۔
(الناسخ والمنسوخ، ص 243، تفسير القرطبي: 176/3)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے