سوال
مولوی ابوداؤد محمد صادق حنفی بریلوی نے آنحضرتﷺ کے حاضر ناظر ہونے کے ثبوت میں ایک اشتہار لکھا ہے، جس کے کالم نمبر2 میں لکھا ہے کہ :
﴿النَّبِىُّ أَولىٰ بِالمُؤمِنينَ مِن أَنفُسِهِم﴾
اس آیت مبارکہ میں مومنین کے ساتھ نبی پاکﷺ کے ایسے قریب اور نزدیکی کا بیان ہے کہ جس سے زیادہ قریب و نزدیکی نہیں ہوسکتی۔ جب آپ مومنوں کی جانوں سے بھی ان کے اتنے قریب و نزدیک ہیں تو پھر آپ کے حاضر و ناظر ہونے میں کیا شبہ ہوسکتاہے؟ تفسیر معالم خازن، مظہری وغیرہ میں اس آیت کےتحت سرکار کا اپنا ارشاد منقول ہے کہ ’’ نہیں کوئی مومن مگر یہ کہ دنیا و آخرت میں سب لوگوں سے بڑھ کر اس کے قریب ہوں۔ اگر چاہو تو یہ آیت﴿النَّبِىُّ أَولىٰ بِالمُؤمِنينَ مِن أَنفُسِهِم﴾ پڑھو۔
مزید فرمایا: ’’ ان اولی الناس بی المتقون من کانوا وحیث کانوا‘‘ مشکوۃ المصابیح ص263…… آپ اس اقتباس کا محققانہ طریق سے جواب دیں اور ’’ ترجمان الحدیث‘‘ میں شائع فرمائیں۔
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
تمہیدی وضاحت
* اہلِ باطل اور شرک پسند گروہوں کی ایک مخصوص روش یہ رہی ہے کہ وہ “دلائل” کے نام پر تحریف، عیاری اور فریب کاری سے کام لیتے ہیں؛ یہی طرزِ فکر ان کی تحریروں سے عیاں ہوتا ہے۔
* اسی ذہنیت کی جھلک اس اقتباس میں بھی نظر آتی ہے۔ اگر وسعتِ وقت ہوتی تو اس پر تفصیلی نقد پیش کرتا؛ فی الحال تعمیلِ ارشاد میں تفسیرِ مظہری اور مرقاتِ شرحِ مشکوٰۃ کی مکمل عبارت سامنے رکھی جاتی ہے تاکہ قارئین خود مولوی ابوداؤد صاحب بریلوی کی “دیانت” کا اندازہ کر سکیں۔
تفسیرِ مظہری کی اصل عبارت (حرف بہ حرف)
قاضی ثناء اللہ پانی پتیؒ تفسیرِ مظہری میں لکھتے ہیں:
النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ يعنى من بعضهم لبعض فى نفوذ الحكم عليهم ووجوب طاعته عليهم فلا يجوز اطاعة الآباء والامهات فى مخالفة امرالني صلي الله عليه وسلم وهو اولي بهم في الحمل على ماكانت طاعتهم للنبى اولى بهم من طاعتهم لانفسهم وذالك لانه عالم بمصالحهم ونجاحهم قال الله تعالىٰ حريص عليكم بالمؤمنين رؤف رحيم بخلاف انفسهم فانها امارة بالسوء الا من رحم الله وهو ظلوم وجهول فيجب عليهم ان يكون الرسول احب اليهم من انفسهم فامره انفذ عليهم من امرها وشفقته اوفر م شفقتها عليها قال رسول الله صلي الله عليه وسلم قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ حديث انس و عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَا مِنْ مُؤْمِنٍ إِلَّا وَأَنَا أَوْلَى بِهِ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ اقْرَءُوا إِنْ شِئْتُمْ النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ فَأَيُّمَا مُؤْمِنٍ مَاتَ وَتَرَكَ مَالًا فَلْيَرِثْهُ عَصَبَتُهُ مَنْ كَانُوا وَمَنْ تَرَكَ دَيْنًا أَوْ ضَيَاعًا فَلْيَأْتِنِي فَأَنَا مَوْلَاهُ. رواه البخارى، تفسيرمظهري ص308، ج:7، سورة احزاب، انظر ايها القارى المحترم كيف صدرح صاحب المظهري القاضي ثناء الله الحنفي الفانى فتى معنى النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ
اس عبارت کی توضیح (خلاصہ مضمون برقرار رکھتے ہوئے)
* پس منظر یہ ہے کہ غزوۂ تبوک کے موقع پر آپ ﷺ نے تیاری کا حکم دیا تو بعض صحابہؓ نے ارادہ کیا کہ پہلے والدین سے اجازت طلب کریں؛ اجازت ملی تو نکلیں گے۔
* اسی موقع پر یہ آیت نازل ہوئی کہ والدین کی اطاعت پر نبی ﷺ کی اطاعت مقدم ہے، کیونکہ رسول اکرم ﷺ مومنین کے مصالح و مفاسد سے اُن کی اپنی ذات سے بھی زیادہ باخبر ہیں۔
* اسی بنا پر حضرت انسؓ اور حضرت ابوہریرہؓ کی مرویات کا مفہوم یہ بنتا ہے کہ اپنے نفس اور خواہشات پر نبی اکرم ﷺ کی محبت اور اطاعت کو غالب رکھنا لازم ہے۔
مشکوٰۃ کی حدیث کے صفحہ نمبر کی تصحیح
* جس حدیث کا حوالہ “مشکوٰۃ المصابیح ص263” کے طور پر درج کیا گیا، وہ درحقیقت ص446 پر واقع ہے۔
* قرینِ قیاس ہے کہ مولوی صاحب نے مشکوٰۃ براہِ راست ملاحظہ کرنے کے بجائے کسی رسالے سے نقل کی، اسی لیے صفحہ نمبر میں سہو ہوا۔
مرقاتِ شرحِ مشکوٰۃ کی اصل عبارت (حرف بہ حرف)
ملاعلی قاریؒ مرقات میں لکھتے ہیں:
إِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِي ") أَيْ: بِشَفَاعَتِي أَوْ أَقْرَبَ النَّاسِ إِلَى مَنْزِلَتِي (” الْمُتَّقُونَ، مَنْ كَانُوا ") : جَمَعَ بِاعْتِبَارِ مَعْنَى مَنْ، وَالْمَعْنَى كَائِنًا مَنْ كَانَ عَرَبِيًّا أَوْ عَجَمِيًّا أَبْيَضَ أَوْ أَسْوَدَ شَرِيفًا أَوْ وَضِيعًا (” وَحَيْثُ كَانُوا ") أَيْ: سَوَاءٌ كَانُوا بِمَكَّةَ وَالْمَدِينَةِ أَوْ بِالْيَمَنِ وَالْكُوفَةِ وَالْبَصْرَةِ فَسَّرَهُ، فَانْظُرْ إِلَى رُتْبَةِ أُوَيْسٍ الْقَرَنِيِّ بِالْيَمَنِ عَلَى كَمَالِ التَّقْوَى، وَحَالَةِ جَمَاعَةٍ مِنْ أَكَابِرِ الْحَرَمَيْنِ الشَّرِيفَيْنِ مِنْ حِرْمَانِ الْمَنْزِلَةِ الزُّلْفَى، بَلْ مِنْ إِيصَالِ ضَرَرِهِمْ إِلَيْهِ صَلَّى اللَّهُ تَعَالَى عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى مِنْ بَعْضِ ذَوِي الْقُرْبَى، وَحَاصِلُهُ أَنَّهُ لَا يَضُرُّكَ بُعْدُكَ الصُّورِيُّ عَنِّي مَعَ وُجُودِ قَوْلِكَ الْمَعْنَوِيِّ بِي، فَإِنَّ الْعِبْرَةَ بِالتَّقْوَى كَمَا يُسْتَفَادُ مِنْ إِطْلَاقِ قَوْلِهِ تَعَالَى: {إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ} \[الحجرات: 13] مِنْ غَيْرِ اخْتِصَاصٍ بِمَكَانٍ أَوْ زَمَانٍ أَوْ نَوْعِ إِنْسَانٍ فَفِيهِ تَحْرِيضٌ عَلَى التَّقْوَى الْمُنَاسِبَةِ لِلْوَصِيَّةِ عِنْدَ الْمُفَارَقَةِ الصُّغْرَى وَالْكُبْرَى، وَقَدْ قَالَ تَعَالَى: {وَلَقَدْ وَصَّيْنَا الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَإِيَّاكُمْ أَنِ اتَّقُوا اللَّهَ} \[النساء: 131] مَعَ مَا فِيهِ مِنَ التَّسْلِيَةِ لِبَقِيَّةِ الْأُمَّةِ الَّذِينَ لَمْ يُدْرِكُوا زَمَنَ الْحَضْرَةِ وَمَكَانَ الْخِدْمَةِ هَذَا الَّذِي سَنَحَ لِي فِي هَذَا الْمَقَامِ مِنْ حِلِّ الْكَلَامِ عَلَى ظُهُورِ الْمَرَامِ.وقال الطيبى رحمة الله لعل الالتفات كان تسليا لمعاذ بعد مانعى نفسه اليه يعني اذا رجعت الى المدينة بعدى فاقتد باولى الناس وهم المتقون وكنى به عن ابي بكر الصديق ونحوه-مرقاة شرح مشكاة ص:52،51 ج:5، مطبع البابي مصر،
مرقات کی توضیح (اصل مفہوم برقرار رکھتے ہوئے)
* واقعہ یہ ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے آخری نصیحت فرما کر حضرت معاذ بن جبلؓ کو یمن روانہ کیا اور ارشاد ہوا کہ آئندہ غالب امکان ہے کہ تم میری **قبر** ہی دیکھ سکو؛ اس پر حضرتِ معاذؓ رقتِ قلبی سے زاروقطار رو پڑے۔
* آپ ﷺ نے تسلی دیتے ہوئے واضح کیا کہ:
* میری شفاعت یا قربِ منصب کے سب سے زیادہ حقدار **متقین** ہیں، چاہے وہ عرب ہوں یا عجم، گورے ہوں یا کالے، شریف ہوں یا عامی؛ مقام بھی کوئی قید نہیں—مکہ، مدینہ، یمن، کوفہ یا بصرہ—کہیں بھی ہوں۔
* اس اصول کی ایک روشن مثال **حضرت اویس قرنیؒ** ہیں کہ باوجود فاصلے کے کامل تقویٰ کی وجہ سے میرے قریبی درجے کے سزاوار ٹھہرتے ہیں، جبکہ حرمین کے بعض بڑے افراد—even بعض قریبی رشتہ دار—ایذا رسانی کے سبب قربت سے محروم رہے۔
* خلاصہ یہ کہ اگر معنوی وابستگی (تقویٰ) موجود ہو تو ظاہری بُعد نقصان دہ نہیں، کیونکہ معیار **تقویٰ** ہی ہے: {إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ} \[الحجرات: 13] اور یہی وصیت صغریٰ (سفر) و کبریٰ (موت) دونوں مواقع پر موزوں ہے: {وَلَقَدْ وَصَّيْنَا الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ…} \[النساء: 131]
* اسی میں بعد والوں کے لیے تسلی بھی ہے کہ اگرچہ وہ مجلسِ نبوی اور دیدار سے محروم ہیں، تب بھی تقویٰ کے اعتبار سے قرب پا سکتے ہیں۔
* علامہ طیبیؒ کے مطابق اس میں معاذؓ کو یہ رہنمائی ہے کہ میرے بعد مدینہ لوٹو تو **افضل لوگوں** (مثلاً ابوبکر صدیقؓ وغیرہ) کی اقتدا اختیار کرنا۔
“حاضر و ناظر” کے استدلال پر تنقیدی جائزہ
* اس حدیث و تفسیر میں کہاں یہ مذکور ہے کہ آپ ﷺ بعد از وصال **حاضر و ناظر** ہیں؟
* اگر حقیقتاً “حاضر و ناظر” مراد ہوتی تو حضرت معاذؓ کو تسلی یوں دی جاتی کہ “میں دنیا سے جانے کے بعد بھی تمہارے پاس موجود رہوں گا”؛ پھر قبر کا ذکر، تقویٰ کی وصیت اور شفاعت کی بشارت کا کیا محل رہتا؟
* علامہ طیبیؒ کی تعبیر کے مطابق ابوبکر صدیقؓ اور عمر فاروقؓ جیسے متقینِ امت کی اقتدا کی ہدایت بھی اسی سمت رہنمائی کرتی ہے، نہ کہ “ہر جگہ حاضری” کے مفہوم کی طرف۔
اگر آیت سے “حاضر و ناظر” مراد لے لی جائے تو؟
* بالفرض آیت کا یہی مطلب مان لیا جائے تو لازم آئے گا کہ **تمام زندہ و فوت شدہ مسلمان** بھی “حاضر و ناظر” ہوں؛ کیونکہ آیت کے آخری الفاظ یہ ہیں:
﴿وَأُولُوا الأَرحامِ بَعضُهُم أَولى بِبَعضٍ فى كِتـبِ اللَّهِ مِنَ المُؤمِنينَ وَالمُهـجِرينَ…﴿٦﴾… سورة الأحزاب
* اس طرح عملاً سب کو ہر جگہ “حاضر و ناظر” ماننا پڑے گا، اور پھر خصوصیتِ نبوی کہاں باقی رہے گی؟
“مولیٰ” کا لغوی و حدیثی مفہوم: “ذمہ دار/ولی”
* “مولیٰ” کا مفہوم “ذمہ دار/ولی” بھی ہوتا ہے؛ جیسا کہ حضرت ابوہریرہؓ کی روایت میں آیا کہ مقروض کے قرض اور بے سہارا بچوں کی کفالت کی ذمہ داری آپ ﷺ نے اپنے ذمہ لی۔
* صحیح بخاری کے حاشیہ میں امام ابن الجوزی نے “مولیٰ” کے معنی “ولی” کے کیے ہیں۔ حوالہ ملاحظہ ہو:
’’ انا مولاہ ای ولیه‘‘
’’یعنی ( آنحضرتﷺ نے فرمایا) میں مقروض کے قرضہ کا ضامن ہوں۔‘‘
* اور حضرت ابوہریرہؓ کی دوسری روایت میں یہ الفاظ بھی وارد ہیں:
’’من ترک کلا فالینا‘‘ (بخاری)
* لہٰذا “**ولی بالمؤمنین**” کا مطلب “حاضر و ناظر” متعین کرنا صریحاً بے جا ہے؛ اسے قرآن کے معنی میں تحریف سمجھا جائے گا—اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس عظیم جرم سے محفوظ رکھے۔ آمین
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب