سوال
کیا جن قابو ہوجاتے ہیں؟ اگر قابو ہوجاتے ہیں تو کیا ہم انہیں قابو کرسکتے ہیں یا نہیں؟ دونوں صورتوں کی دلیل بیان فرمائیں۔ بعض اوقات لوگ کہتے ہیں کہ ہمارے بچے کو جن لگ گئے ہیں، تو اس کا علاج کس طرح کیا جائے؟ کیونکہ کچھ لوگ جنات کے ذریعے علاج کرتے ہیں اور جن نکالتے ہیں۔ تو ہمیں ایسے مریضوں کا علاج کس طرح کرنا چاہیے؟ کیا ہم جن کو حاضر کریں اور اس سے پوچھیں یا پھر علاج نہ کریں اور ان مریضوں کو جنات کے ماہرین کے پاس بھیج دیں؟ اس بارے میں مکمل وضاحت فرمائیں۔
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جن اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں
اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتے ہیں:
﴿وَالْجَانَّ خَلَقْنَاهُ مِن قَبْلُ مِن نَّارِ السَّمُومِ (٢٧)﴾ (الحجر)
’’ اور جنوں کو اس سے پہلے ہم آگ کی لپٹ سے پیدا کرچکے تھے۔‘‘
﴿وَخَلَقَ الْجَانَّ مِن مَّارِجٍ مِّن نَّارٍ (١٥)﴾ (الرحمٰن)
’’ اورجنوں کو آگ کے شعلہ سے پیدا کیا۔ ‘‘
ابلیس لعین نے بھی کہا تھا:
﴿ أَنَا خَيْرٌ مِّنْهُ خَلَقْتَنِي مِن نَّارٍ وَخَلَقْتَهُ مِن طِينٍ (١٢) ﴾ (الاعراف)
’’میں آدم سے بہتر ہوں ، کیونکہ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا ہے اور اسے مٹی سے۔ ‘‘
جنات کی اقسام
ان میں کچھ نیک اور مسلم ہیں اور کچھ بدکار اور ظالم:
﴿وَأَنَّا مِنَّا الصَّالِحُونَ وَمِنَّا دُونَ ذَٰلِكَ ۖ (١١)﴾ (الجن)
’’ ہم میں سے کچھ نیک لوگ ہیں اور کچھ اس سے کم درجہ کے ہیں۔‘‘
﴿وَأَنَّا مِنَّا الْمُسْلِمُونَ وَمِنَّا الْقَاسِطُونَ ۖ ﴾ (الجن)
’’ہم میں سے کچھ مسلمان اور کچھ بے انصاف ہیں۔‘‘
قرآن سننے والے جنات
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَإِذْ صَرَفْنَا إِلَيْكَ نَفَرًا مِّنَ الْجِنِّ يَسْتَمِعُونَ الْقُرْآنَ فَلَمَّا حَضَرُوهُ قَالُوا أَنصِتُوا ۖ فَلَمَّا قُضِيَ وَلَّوْا إِلَىٰ قَوْمِهِم مُّنذِرِينَ (٢٩) قَالُوا يَا قَوْمَنَا إِنَّا سَمِعْنَا كِتَابًا أُنزِلَ مِن بَعْدِ مُوسَىٰ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ يَهْدِي إِلَى الْحَقِّ وَإِلَىٰ طَرِيقٍ مُّسْتَقِيمٍ (٣٠) يَا قَوْمَنَا أَجِيبُوا دَاعِيَ اللَّـهِ وَآمِنُوا بِهِ يَغْفِرْ لَكُم مِّن ذُنُوبِكُمْ وَيُجِرْكُم مِّنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ (٣١) وَمَن لَّا يُجِبْ دَاعِيَ اللَّـهِ﴾ (الاحقاف)
’’ اور جب ہم جنوں کے ایک گروہ کو آپ کی طرف لائے، جو قرآن سن رہے تھے، جب وہ اس مقام پر پہنچے تو کہنے لگے: خاموش ہوجاؤ، پھر جب قرآن پڑھا جاچکا تو وہ ڈرانے والے بن کر اپنی قوم کے پاس لوٹے۔ کہنے لگے: اے ہماری قوم! ہم نے ایسی کتاب سنی ہے جو موسیٰ کے بعد نازل ہوئی ہے، وہ اپنے سے پہلی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے۔ حق اور صراطِ مستقیم کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔ اے ہماری قوم! اللہ کی طرف بلانے والے کی بات مان لو اور اس پر ایمان لے آؤ وہ تمہارے گناہ بخش دے گا اور تمہیں المناک عذاب سے بچالے گا۔ اور جو اللہ کی طرف بلانے والے کی بات نہ مانے تو وہ زمین میں اسے عاجز نہیں کرسکتا۔‘‘
اسی طرح فرمایا:
﴿قُلْ أُوحِيَ إِلَيَّ أَنَّهُ اسْتَمَعَ نَفَرٌ مِّنَ الْجِنِّ فَقَالُوا إِنَّا سَمِعْنَا قُرْآنًا عَجَبًا (١)﴾ (الجن)
’’ کہیے مجھے وحی ہوئی کہ جنوں کے گروہ نے (قرآن) غور سے سنا، پھر کہا کہ ہم نے عجیب قرآن سنا ہے۔‘‘
جنات انسانوں کو نقصان یا فائدہ بھی پہنچاتے ہیں
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَأَنَّهُ كَانَ رِجَالٌ مِّنَ الْإِنسِ يَعُوذُونَ بِرِجَالٍ مِّنَ الْجِنِّ فَزَادُوهُمْ رَهَقًا (٦)﴾ (الجن)
’’ اور یہ کہ انسانوں میں سے کچھ لوگ جنوں کے کچھ لوگوں کی پناہ مانگا کرتے تھے، چنانچہ انہوں نے جنوں کے غرور کو بڑھادیا تھا۔‘‘
﴿وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا شَيَاطِينَ الْإِنسِ وَالْجِنِّ يُوحِي بَعْضُهُمْ إِلَىٰ بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُورًا ۚ (١١٢)﴾ (الانعام)
’’ اسی طرح ہم نے شیطان سیرت انسانوں اور جنوں کو ہر نبی کا دشمن بنایا جو دھوکہ دینے کی غرض سے کچھ خوش آئند باتیں ایک دوسرے کو پھونکتے رہتے ہیں۔‘‘
﴿ يَا مَعْشَرَ الْجِنِّ قَدِ اسْتَكْثَرْتُم مِّنَ الْإِنسِ ۖ وَقَالَ أَوْلِيَاؤُهُم مِّنَ الْإِنسِ رَبَّنَا اسْتَمْتَعَ بَعْضُنَا بِبَعْضٍ (١٢٨)﴾ (الانعام)
’’ اے گروہ جن! تم نے بہت سے آدمیوں کو ( اپنا تابع) بنا رکھا تھا اور انسانوں میں سے جنوں کے دوست کہیں گے ، ہمارے رب ہم نے ایک دوسرے سے خوب فائدہ اٹھایا، حتی کہ وہ وقت آگیا جو تو نے ہمارے لیے مقرر کیا تھا۔ اللہ فرمائے گا: تم سب کا ٹھکانا جہنم ہے۔‘‘
سلیمان علیہ السلام کے تابع جنات
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿وَالشَّيَاطِينَ كُلَّ بَنَّاءٍ وَغَوَّاصٍ (٣٧) وَآخَرِينَ مُقَرَّنِينَ فِي الْأَصْفَادِ (٣٨)﴾ (ص)
’’ اور شیطان بھی مسخر کردیے جو سب معمار و غوطہ زن تھے اور کچھ دوسرے زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے۔‘‘
نیز فرمایا:
﴿وَمِنَ الْجِنِّ مَن يَعْمَلُ بَيْنَ يَدَيْهِ بِإِذْنِ رَبِّهِ ۖ وَمَن يَزِغْ مِنْهُمْ عَنْ أَمْرِنَا نُذِقْهُ مِنْ عَذَابِ السَّعِيرِ (١٢) يَعْمَلُونَ لَهُ مَا يَشَاءُ﴾ (سبا)
’’ اور بعض جن اپنے رب کے حکم سے ان کے سامنے کام کرتے تھے اور ان میں سے کوئی ہمارے حکم سے سرتابی کرتا تو ہم اسے بھڑکتی آگ کے عذاب کا ذائقہ چکھاتے جو سلیمان چاہتے وہی جن ان کے لیے بناتے۔‘‘
نبی اکرم ﷺ کا تجربہ جن کے ساتھ
رسول اللہ ﷺ نے ایک جن کو پکڑنے کا ارادہ فرمایا بلکہ اس پر قادر ہوگئے لیکن آپ نے فرمایا:
’’مجھے اپنے بھائی سلیمانؑ کی دعا یاد آگئی تو میں نے اسے چھوڑ دیا۔‘‘
(صحیح بخاری، کتاب التفسیر، سورۃ ص)
اسی طرح ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بھی ایک جن کو دو رات پکڑا، لیکن وہ ان کو آیت الکرسی بتا کر بچ نکلتا رہا۔
(صحیح البخاری، کتاب الوکالة، باب إذا وکل رجلا فترك الوکیل شیئا)
خلاصہ کلام
◈ سلیمان علیہ السلام کے تابع جنات اللہ کے حکم سے قابو میں آئے تھے۔
◈ نبی اکرم ﷺ بھی ایک جن کو پکڑنے پر قادر ہوئے مگر سلیمانؑ کی دعا کے سبب اسے چھوڑ دیا۔
◈ باقی جنوں پر قابو پانے کا دعویٰ کرنے والوں کے بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔
◈ اس فقیر الی اللہ الغنی کا جنوں کے ساتھ کوئی تعارف یا تجربہ نہیں ہے۔
◈ لہٰذا علاج کے لیے قرآن و سنت کی دعاؤں اور اذکار پر اعتماد کرنا چاہیے، نہ کہ ان دعویداروں پر جو جنات کے ذریعے علاج کا دعویٰ کرتے ہیں۔
واللہ اعلم بالصواب