نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین کے ایمان اور احادیث کی حقیقت
ماخوذ : فتاویٰ علمائے حدیث

سوال

میں نے کسی سے سنا ہے کہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین کا عقیدہ درست نہیں تھا، یہ سن کر مجھے بہت حیرت ہوئی۔ پھر انہوں نے ایک حدیث بھی بیان کی کہ ایک صحابی رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور عرض کیا کہ میرے والد کا انتقال ہو گیا ہے اور وہ آپ پر ایمان نہیں لائے تھے، ان کا کیا انجام ہوگا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ دوزخ کے گڑھوں میں سے ایک گڑھے میں ہیں۔ صحابی رونے لگے اور واپس جانے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں روک کر فرمایا: میرے والد بھی انہی گڑھوں میں سے ایک گڑھے میں ہیں۔

میرا سوال یہ ہے کہ اس حدیث کی صحت کیا ہے؟ یہ کہاں سے ہے؟ اور کیا یہ حقیقت میں موجود بھی ہے؟ دوسری بات یہ کہ مجھے کسی نے بتایا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ کو دوبارہ زندہ کیا گیا تاکہ وہ ایمان لے آئیں اور پھر انہیں واپس اٹھا لیا گیا۔ یہ بات مجھے سمجھ میں نہیں آئی۔ برائے کرم رہنمائی فرمائیں۔

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

احتیاط کا تقاضا

سب سے پہلی بات یہ ہے کہ ایسے نازک سوالات اور موضوعات سے اجتناب کرنا چاہیے کیونکہ ان میں کسی قسم کا دینی یا عملی فائدہ نہیں ہے۔ ہم میں سے کوئی شخص اپنے والدین کے بارے میں برے الفاظ سننا یا کہنا پسند نہیں کرتا، تو پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین کے بارے میں گفتگو کرنا کس قدر غیر مناسب ہوگا۔ لیکن چونکہ سوال کیا گیا ہے، اس لیے ادب و احترام کے ساتھ وضاحت پیش کی جاتی ہے۔

والد کے بارے میں حدیث کی وضاحت

آپ نے جس حدیث کا حوالہ دیا ہے، وہ ایک صحیح حدیث ہے جسے امام مسلم نے اپنی صحیح میں نقل کیا ہے۔ اس کے الفاظ درج ذیل ہیں:

عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ رَجُلًا قَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ، أَيْنَ أَبِي؟ قَالَ: «فِي النَّارِ» ، فَلَمَّا قَفَّى دَعَاهُ، فَقَالَ: «إِنَّ أَبِي وَأَبَاكَ فِي النَّارِ»
[صحيح مسلم، 1 – كتاب الإيمان، 88 – باب بيان أن من مات على الكفر فهو في النار، ولا تناله شفاعة، ولا تنفعه قرابة المقربين: 347(203)]

ترجمہ:
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور پوچھا: یا رسول اللہ! میرا باپ کہاں ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آگ میں۔ جب وہ واپس جانے لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرا باپ اور تیرا باپ دونوں آگ میں ہیں۔

والدہ کے بارے میں حدیث

صحیح مسلم ہی میں ایک اور صحیح روایت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:

زار النبي صلى الله عليه وسلم قبر أمه فبكى وأبكى من حوله ثم قال: "استأذنت ربي في زيارة قبر أمي فأذن لي، واستأذنته في الاستغفار لها فلم يأذن لي، فزوروا القبور تذكركم بالموت”
[صحيح مسلم، 10 – كتاب الكسوف، 36 – باب استئذان النبي صلى الله عليه وسلم ربه عز وجل في زيارة قبر أمه، 108 – (976)]

ترجمہ:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی والدہ کی قبر کی زیارت کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم روئے اور آپ کے ساتھ موجود تمام لوگ بھی رونے لگے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے اپنے رب سے اپنی والدہ کی قبر کی زیارت کی اجازت مانگی جو عطا کر دی گئی، اور میں نے ان کے لیے استغفار کی اجازت مانگی مگر وہ نہیں دی گئی۔ تم قبروں کی زیارت کیا کرو، اس سے موت یاد آتی ہے۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام سے مثال

جس طرح اللہ تعالیٰ نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو اپنے مشرک والد کے لیے استغفار کرنے کی اجازت نہیں دی، بالکل اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اپنی والدہ کے لیے استغفار کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔

یہ احادیث مبارکہ اپنے معنی میں بالکل واضح اور صریح ہیں، ان میں کسی قسم کی تاویل کی گنجائش نہیں ہے۔

والدین کے دوبارہ زندہ کیے جانے کی روایت

جہاں تک یہ بات ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین کو زندہ کیا گیا تاکہ وہ ایمان لے آئیں، تو اس بارے میں جو بھی روایات منقول ہیں وہ سب ضعیف یا موضوع ہیں۔

شمس الحق عظیم آبادی فرماتے ہیں:
"كل ما ورد بإحياء والديه صلى الله عليه وسلم وإيمانهما ونجاتهما أكثره موضوع مكذوب مفترى، وبعضه ضعيف جدا لا يصح بحال، لاتفاق أئمة الحديث على وضعه وضعفه كالدارقطني والجوزقاني وابن شاهين والخطيب وابن عساكر وابن ناصر وابن الجوزي والسهيلي والقرطبي وجماعة”
[عون المعبود 12/494 باختصار، وانظر: مجموع الفتاوى 4/324]

ترجمہ:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین کو زندہ کرنے، ان کے ایمان لانے اور نجات پانے کے بارے میں جتنی بھی روایات بیان کی جاتی ہیں، ان میں سے اکثر من گھڑت اور موضوع ہیں، اور کچھ بہت زیادہ ضعیف ہیں جو کسی صورت بھی قابلِ حجت نہیں۔ امام دارقطنی، امام جوزقانی، ابن شاہین، خطیب بغدادی، ابن عساکر، ابن ناصر، ابن جوزی، سہیلی، امام قرطبی اور دیگر اہل علم نے ان روایات کو ضعیف اور موضوع قرار دیا ہے۔

نسبی رشتہ اور نجات

یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ کسی بھی نبی کے ساتھ نسبی رشتہ نجات کے لیے کافی نہیں ہے۔

✿ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا والد مشرک تھا لیکن اس کے لیے رشتہ داری فائدہ مند نہ بنی۔
✿ سیدنا نوح علیہ السلام کا بیٹا کافر رہا اور نسبی تعلق اس کے کسی کام نہ آیا۔

اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خاندان کے لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:

يا معشر قريش اشتروا أنفسكم لا أغني عنكم من الله شيئا، يا بني عبد مناف لا أغني عنكم من الله شيئا، يا عباس بن عبد المطلب لا أغني عنك من الله شيئا، ويا صفية عمة رسول الله لا أغني عنك من الله شيئا، ويا فاطمة بنت محمد سليني من مالي ما شئت لا أغني عنك من الله شيئا
[رواه البخاري (2753) ومسلم (206)]

نتیجہ

◈ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین کے بارے میں صحیح احادیث موجود ہیں۔
◈ آپ کے والدین کو دوبارہ زندہ کیے جانے کے بارے میں جتنی روایات ہیں وہ سب ضعیف یا موضوع ہیں۔
◈ نجات کے لیے ایمان ضروری ہے، نسبی رشتہ کافی نہیں۔

واللہ اعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے