قرآنی اور نبوی ہدایات کی روشنی میں غلو کا رد اور اعتدال کا حکم
ماخوذ: فتاوی امن پوری از شیخ غلام مصطفی ظہیر امن پوری

سوال:

کتابت حدیث کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟

جواب:

کتابت حدیث بالا جماع جائز ہے۔
❀ علامہ صرصری رحمہ اللہ (716ھ) فرماتے ہیں:
الحفظ هو ضبط الشيء ومنعه من الصياع، فتارة يكون حفظ العلم بالقلب وإن لم يكتب، وتارة فى الكتاب وإن لم يحفظ بقلبه
حفظ کسی شے کو ضبط کرنے اور اسے ضائع ہونے سے بچانے کو کہتے ہیں۔ علم کی حفاظت زبانی یاد کرنے سے بھی ہوتی ہے، خواہ اسے لکھا نہ بھی جائے اور کبھی کتاب میں درج کرنے سے بھی حفاظت ہوتی ہے، خواہ اسے زبانی یاد نہ بھی کیا جائے۔
(التعيين، ص 15)
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مرض وفات میں فرمایا:
آتوني بكتاب أكتب لكم كتابا لا تضلوا بعده
میرے پاس لکھنے کے لیے کچھ لائیں، تا کہ میں تحریر کر دوں کہ جس کے بعد آپ نہیں بھٹکیں گے۔
(صحيح البخاري: 114، صحيح مسلم: 1637)
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ اپنے بچوں سے فرمایا کرتے تھے:
يا بني قيدوا العلم بالكتاب
میرے بچو! لکھ کر علم کو محفوظ کریں۔
(العلم لزهير بن حرب: 120، المستدرك للحاكم: 361، وسنده حسن)
امام حاکم رحمہ اللہ نے اس روایت کو صحیح کہا ہے۔
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
﴿وَكَانَ تَحْتَهُ كَنْزٌ لَهُمَا﴾ قال: ما كان ذهبا ولا فضة كان صحفا علما
فرمان باری تعالیٰ: اور اس (دیوار) کے نیچے دونوں (یتیم بچوں) کا خزانہ تھا۔ اس خزانہ سے مراد کوئی سونا یا چاندی نہ تھا، بلکہ اس سے مراد علمی صحائف تھے۔
(المستدرك للحاكم: 3396، تقييد العلم للخطيب، ص 117، وسنده حسن)
اس روایت کو امام حاکم رحمہ اللہ نے صحیح الاسناد کہا ہے، حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے صحیح کہا ہے۔
❀ سعید بن جبیر رحمہ اللہ (95ھ) بیان کرتے ہیں:
كنت أسير مع ابن عباس رضي الله عنهما، فى طريق مكة ليلا، وكان يحدثني بالحديث فأكتبه فى واسطة الرحل، حتى أصبح فاقتبسته
میں رات کو سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے ساتھ مکہ کے راستے پر سفر کرتا تھا، آپ مجھے حدیث بیان کرتے اور میں اسے کجاوے کی درمیانی لکڑی پر لکھتا تھا، پھر صبح کو اسے (کتاب وغیرہ پر) نقل کر لیتا تھا۔
(مصنف ابن أبي شيبة: 26434، سنن الدارمي: 516، وسنده صحيح)
❀ ضحاک بن مزاحم ہلالی رحمہ اللہ (بعد: 100ھ) فرماتے ہیں:
إذا سمعت شيئا، فاكتبه ولو فى حائط
آپ جب بھی کوئی (علمی) شے سنیں، تو اسے لکھ لیا کریں، خواہ دیوار پر ہی لکھنا پڑے۔
(جامع بيان العلم وفضله لابن عبد البر: 401، وسنده صحيح)
❀ سلیمان بن موسیٰ قرشی رحمہ اللہ (119ھ) کے بارے میں ہے:
رأى نافعا مولى ابن عمر رحمه الله، يملي علمه، ويكتب بين يديه
میں نے نافع مولی ابن عمر رحمہ اللہ کو دیکھا، آپ اپنے علم کی طلبہ کو املا کرواتے تھے اور آپ کے سامنے (علم) لکھا جاتا تھا۔
(سنن الدارمي: 524، وسنده صحيح)
❀ عبد اللہ بن دینار قرشی رحمہ اللہ (127ھ) بیان کرتے ہیں:
كتالله عليه وسلم فاكتبوه فإني قد خفت دروس العلم وذهاب أهله
عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ (101ھ) نے اہل مدینہ کی طرف خط لکھا کہ وہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر توجہ دیں اور اسے لکھیں، کیونکہ مجھے علم کے مٹ جانے اور اہل علم کے ختم ہو جانے کا اندیشہ ہے۔
(سنن الدارمي: 504، 505، وسنده صحيح)
ابو ایاس معاویہ بن قرہ مزنی رحمہ اللہ (113ھ) فرماتے ہیں:
من لم يكتب العلم فلا تعد علمه علما
جو علم کو نہ لکھے، آپ اس کے علم کو علم نہ سمجھیں۔
(سنن الدارمي: 507، تقييد العلم للبغدادي، ص 109، وسنده حسن)
❀ عبد الرحمن بن حرملہ رحمہ اللہ (145ھ) فرماتے ہیں:
كنت سيئ الحفظ، فرخص لي سعيد بن المسيب رحمه الله فى الكتاب
میرا حافظہ اچھا نہ تھا، تو سعید بن مسیب رحمہ اللہ نے مجھے لکھنے کا مشورہ دیا۔
(مصنف ابن أبي شيبة: 26426، وسنده صحيح)
مبارک بن سعید بن مسروق رحمہ اللہ (180ھ) بیان کرتے ہیں:
كان سفيان يكتب الحديث بالليل فى الحائط، فإذا أصبح نسخه، ثم حكه
امام سفیان بن سعید ثوری رحمہ اللہ (161ھ) رات کو دیوار پر ہی حدیث لکھ لیتے، جب صبح ہوتی، تو اسے (اوراق پر) نقل کر لیتے اور دیوار سے مٹا دیتے۔
(سنن الدارمي: 525، وسنده صحيح)
❀ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ (241ھ) اور امام اسحاق بن راہویہ رحمہ اللہ (238ھ) فرماتے ہیں:
لولا كتابته أى شيء كنا نحن؟
اگر حدیث کو لکھا نہ جاتا تو ہماری کیا حیثیت ہوتی؟
(مسائل الكوسج: 3313)
❀ علامہ قاضی عیاض رحمہ اللہ (544ھ) کتابت علم میں اختلاف ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
وقع عليه بعد هذا الاتفاق والإجماع من جميع مشايخ العلم وأئمته وناقليه
بعد میں کتابت حدیث پر تمام مشائخ اور ائمہ و محدثین کا اجماع و اتفاق ہو گیا۔
(الإلماع في معرفة أصول الرواية وتقييد السماع، ص 147)
❀ حافظ نووی رحمہ اللہ (676ھ) فرماتے ہیں:
من السلف من منع كتابة العلم وقال جمهور السلف بجوازه ثم أجمعت الأمة بعدهم على استحبابه
بعض سلف نے کتابت علم سے منع کیا، جبکہ جمہور سلف نے اسے جائز قرار دیا، بعد میں امت کا اجماع ہو گیا کہ کتابت علم مستحب ہے۔
(شرح مسلم: 129/9)
❀ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (852ھ) فرماتے ہیں:
الإجماع انعقد على جواز كتابة العلم بل على استحبابه بل لا يبعد وجوبه على من خشي النسيان ممن يتعين عليه تبليغ العلم
اجماع منعقد ہو چکا ہے کہ کتابت علم جائز ہے، بلکہ مستحب ہے، یہ بعید نہیں کہ مبلغین میں سے جسے بھولنے کا خدشہ ہو، اس پر تو کتابت واجب ہو۔
(هدى الساري، ص 204)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے