سوال:
حدر جم کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟
جواب:
حدر جم حق ہے، متواتر احادیث سے ثابت ہے، نیز اس پر اجماع ہے۔
❀ حافظ ابن عبد البر رحمہ اللہ (463ھ) فرماتے ہیں:
فيه إثبات الرجم والحكم به على الشيب الزاني وهو أمر أجمع أهل الحق وهم الجماعة أهل الفقه والأثر عليه ولا يخالف فيه من يعده أهل العلم خلافا
اس حدیث میں رجم کا اثبات اور شادی شدہ زانی پر یہ حد نافذ کرنے کا حکم ہے، اس پر اہل حق یعنی فقہا اور محدثین کی جماعت کا اجماع ہے، اس میں ایسے کسی شخص نے مخالفت نہیں کی، جس کے اختلاف کو اہل علم حیثیت دیتے ہیں۔
(التمهيد: 388/14)
❀ نیز فرماتے ہیں:
أما أهل البدع من الخوارج والمعتزلة فلا يرون الرجم على أحد من الزناة ثيبا كان أو غير ثيب وإنما حد الزناة عندهم الجلد الشيب وغير الشيب سواء عندهم وقولهم فى ذلك خلاف سنة رسول الله صلى الله عليه وسلم وخلاف سبيل المؤمنين فقد رجم رسول الله صلى الله عليه وسلم والخلفاء بعده وعلماء المسلمين فى أقطار الأرض متفقون على ذلك من أهل الر أى والحديث وهم أهل الحق
خوارج اور معتزلہ میں اہل بدعت رجم کے قائل نہیں، خواہ زانی شادی شدہ ہو یا کنوارا، ان کے ہاں زانی کی حد کوڑے ہیں، خواہ زانی شادی شدہ ہو یا کنوارا، ان کے ہاں دونوں کا حکم ایک ہی ہے۔ ان کا یہ قول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور سبیل مؤمنین کے خلاف ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلفائے راشدین نے رجم کیا، تمام علاقوں کے فقہا اور محدثین علمائے مسلمین کا رجم کے ثبوت پر اتفاق ہے، یہ اہل حق ہیں۔
(التمهيد: 121/23)
❀ علامہ علی بن ابی بکر مرغینانی حنفی رحمہ اللہ (593ھ) فرماتے ہیں:
على هذا إجماع الصحابة رضي الله تعالى عنهم
رجم پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اجماع ہے۔
(الهداية: 500/2)
❀ علامہ عثمان بن علی زیلعی حنفی رحمہ اللہ (743ھ) فرماتے ہیں:
عليه إجماع الصحابة فوصل إلينا إجماعهم بالتواتر ولا معنى لإنكار الخوارج الرجم لأنهم ينكرون القطعي فيكون مكابرة وعنادا
رجم پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اجماع ہے، ان کا اجماع ہم تک تواتر کے ساتھ پہنچا ہے، خوارج نے جو رجم کا انکار کیا ہے، اس کی کوئی حیثیت نہیں، کیونکہ انہوں نے قطعی الثبوت شے کا انکار کیا ہے، یہ انکار تکبر اور عناد کے باعث ہے۔
(تبيين الحقائق: 167/3)
❀ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (774ھ) فرماتے ہیں:
جاءت السنة المتواترة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم رجم المحصن
متواتر احادیث میں ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شادی شدہ (زانی) کو رجم کیا۔
(تحفة الطالب، ص 347)
❀ حافظ ابن ملقن رحمہ اللہ (804ھ) فرماتے ہیں:
أهل السنة مجمعون على أن الرجم من حكم الله
اہل سنت کا اجماع ہے کہ رجم اللہ تعالیٰ کا حکم ہے۔
(التوضيح: 236/30)
❀ حافظ عراقی رحمہ اللہ (806ھ) فرماتے ہیں:
فيه رجم الزاني المحصن فى الجملة، وهو مجمع عليه
یہ حدیث دلیل ہے کہ بنیادی طور پر شادی شدہ زانی کو رجم کیا جائے گا، اس پر اجماع ہے۔
(طرح التثريب: 7/8)
❀ علامہ عینی حنفی رحمہ اللہ (855ھ) فرماتے ہیں:
فيه إثبات الرجم والحكم به على الشيب الزاني وهو أمر أجمع أهل الحق وهم الجماعة أهل السنة والأثر، ولا يخالف فى ذلك من يعده أهل العلم خلافا
اس حدیث میں رجم کا اثبات اور شادی شدہ زانی پر یہ حد نافذ کرنے کا حکم ہے، اس پر اہل حق یعنی اہل سنت اور محدثین کرام کی جماعت کا اجماع ہے، اس میں ایسے کسی شخص نے مخالفت نہیں کی، جس کے اختلاف کو اہل علم حیثیت دیتے ہیں۔
(نخب الأفكار: 414/14)
❀ علامہ ابن نجیم حنفی رحمہ اللہ (970ھ) فرماتے ہیں:
على هذا إجماع الصحابة، وإنكار الخوارج الرجم باطل؛ لأنهم إن أنكروا حرية إجماع الصحابة فجهل مركب بالدليل بل هو إجماع قطعي، وإن أنكروا وقوعه من رسول الله صلى الله عليه وسلم لإنكارهم حرية خبر الواحد فهو بعد بطلانه بالدليل ليس مما نحن فيه؛ لأن ثبوت الرجم عن رسول الله صلى الله عليه وسلم متواتر المعنى
رجم پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اجماع ہے، خوارج کا رجم کا انکار کرنا باطل ہے، کیونکہ اگر انہوں نے اجماع صحابہ رضی اللہ عنہم کی حجیت کا انکار کیا ہے، تو دلیل سے کوری جہالت ہے، یہ قطعی اجماع ہے، اگر انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے رجم کے ثبوت کا انکار کیا ہے، کیونکہ وہ خبر واحد کی حجیت کا انکار کرتے ہیں، تو اس بات کے باطل ہونے کے باوجود یہاں وہ صورت نہیں، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے رجم کا ثبوت متواتر معنوی ہے۔
(البحر الرائق: 8/5، شرح مسند أبي حنيفة لملا علي القاري: 358/1)