سوال
کیا فرماتے ہیں مفتیان دین اس مسئلہ میں کہ پروفیسر مسٹر محمد رفیق اور مسز ثریا (گورنمنٹ کالج لاہور) نے طلباء کے لیے ایک نصابی کتاب لکھی ہے جس میں درج ذیل مسائل پر قرآن و حدیث کی صریح مخالفت کی گئی ہے:
➊ نمازوں میں اب بھی کمی ہو سکتی ہے۔
➋ رسول اللہ ﷺ کا نظام اب فرسودہ ہو چکا ہے، نیا نظامِ حیات اپنانا ہوگا۔
➌ نبی کریم ﷺ کو موسیقی پسند تھی۔
➍ قرآنی تعلیمات اصلی نہیں ہیں۔
➎ احادیث نبویہ ﷺ کو عمومی حیثیت دینا غلط ہے۔
➏ روزہ آج کے دور میں ضروری نہیں ہے۔
➐ اپنی مرضی کے اجتہاد کی اجازت ہے۔
➑ دنیا آزمائش گاہ نہیں ہے۔
➒ سور اتنے پلید نہیں جتنے سمجھے جاتے ہیں۔ سور کا گوشت عمدہ غذا اور کئی بیماریوں کا علاج ہے۔
➓ سور عام جانوروں سے زیادہ چالاک، پھرتیلے اور بہادر ہیں۔ لہٰذا کسی کی تعریف کرنا ہو تو اسے سور کہنا مناسب ہے۔
⓫ شادی کے لیے تین سال کا معاہدہ ہونا چاہیے۔ لڑکیوں اور لڑکوں کا اختلاط کسی خطرے کا موجب نہیں بلکہ قابل تعریف ہے۔
پوچھا گیا کہ ایسے نظریات رکھنے والا شخص مسلمان کہلا سکتا ہے یا نہیں؟ شریعت میں ایسے انسان کا کیا حکم ہے؟ کیا وہ مرتد اور واجب القتل ہے؟ اور اگر اپنے باطل عقائد سے رجوع کر لے تو کیا اس کی توبہ قبول ہوگی یا نہیں؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بشرط صحت سوال، ایسے عقائد رکھنے والے بلاشبہ دائرہ اسلام سے خارج ہیں اور ان کا یہ الحاد اس قدر واضح ہے کہ ان کی کتاب جلادی جانی چاہیے۔
نمازوں میں کمی کا عقیدہ کفر ہے
پانچ نمازیں اللہ عزوجل کی مقرر کردہ فرض ہیں۔ جیسا کہ صحیح البخاری، باب کیف فرضت الصلوٰۃ فی الاسراء (ج1 ص51) میں حضرت یونس کی حدیث ہے:
فقال هى خمس وهى خمسون لايبدل القول لدى.
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: پڑھنے میں یہ پانچ ہیں مگر ثواب پچاس نمازوں کا ملے گا اور میرا فیصلہ کسی تغیر کو قبول نہیں کرتا۔
اسی طرح صحیح البخاری (ج1 ص15) میں حضرت انس کی روایت ہے کہ حضرت ضمام بن ثعلہ نے عرض کیا: "میں آپ کو اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں، کیا واقعی اللہ نے دن رات میں پانچ نمازوں کا حکم دیا ہے؟” رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "ہاں، واقعی حکم دیا ہے۔”
یہ اور اس طرح کی بے شمار احادیث صحیحہ ثابت کرتی ہیں کہ پانچ نمازیں خود اللہ کی مقرر کردہ ہیں۔ لہٰذا ان میں کمی کا دعویٰ اللہ کے قطعی فیصلے کا انکار ہے، اور ایسا انکار کفر ہے۔
رسول اللہ ﷺ کے نظام کو فرسودہ کہنا
یہ کہنا کہ رسول اللہ ﷺ کا نظام فرسودہ ہوچکا ہے اور نیا نظام اپنانا ہوگا، صریح کفر و الحاد ہے۔ اسلام کا نظام حیات ابدی ہے اور کبھی پرانا نہیں ہوسکتا۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿إِنَّ الدّينَ عِندَ اللَّهِ الإِسلـمُ…﴾ (آل عمران: 19) ﴿وَمَن يَبتَغِ غَيرَ الإِسلـمِ دينًا…﴾ (آل عمران: 85) ﴿أَفَغَيرَ دينِ اللَّهِ يَبغونَ…﴾ (آل عمران: 83) ﴿يُريدونَ أَن يَتَحاكَموا إِلَى الطّـغوتِ…﴾ (النساء: 60) ﴿وَمَن لَم يَحكُم بِما أَنزَلَ اللَّهُ فَأُولـئِكَ هُمُ الكـفِرونَ﴾ (المائدة: 44) ﴿وَمَن لَم يَحكُم بِما أَنزَلَ اللَّهُ فَأُولـئِكَ هُمُ الظّـلِمونَ﴾ (المائدة: 45) ﴿وَمَن لَم يَحكُم بِما أَنزَلَ اللَّهُ فَأُولـئِكَ هُمُ الفـسِقونَ﴾ (المائدة: 47)
ان آیات سے واضح ہے کہ اسلام کے علاوہ کوئی نظامِ حیات اللہ کو قبول نہیں، اور غیر اسلامی نظام کو اپنانا طاغوت کی پیروی ہے۔ ایسے لوگوں کو قرآن نے کافر، ظالم، بدکار اور فاسق قرار دیا ہے۔
نبی کریم ﷺ پر موسیقی کی محبت کا بہتان
یہ دعویٰ کہ رسول اللہ ﷺ کو موسیقی پسند تھی، سراسر بہتان ہے۔ آپ ﷺ مبعوث ہی اس لیے ہوئے تھے کہ آلاتِ موسیقی اور لھو الحدیث کو ختم کریں۔
جیسا کہ سنن ابی دائود اور جامع ترمذی میں ہے:
بعثت لمحق المزامير والمعازف. (مشكوة)
قرآن میں بھی فرمایا:
﴿وَمِنَ النّاسِ مَن يَشتَرى لَهوَ الحَديثِ…﴾ (لقمان: 6)
حضرت حسن فرماتے ہیں: لھو الحدیث ہر وہ چیز ہے جو اللہ کی عبادت اور ذکر سے غافل کر دے جیسے فضول قصے، ہنسی مذاق، گانے بجانے وغیرہ۔ (روح المعانی)
امام ابن کثیر نے بھی واضح فرمایا کہ لھو الحدیث سے مراد گانے اور آلاتِ طرب ہیں۔ (تفسیر ابن کثیر ج3 ص457)
لہٰذا یہ کہنا کہ رسول اللہ ﷺ کو موسیقی پسند تھی، آپ پر جھوٹ باندھنے کے مترادف ہے۔ اور نبی ﷺ پر جھوٹ باندھنے والا جہنمی ہے۔
جیسا کہ صحیح بخاری میں احادیث موجود ہیں:
من كذب على فليتبوأ مقعده من النار.
یہ حدیث متواتر ہے اور تیس صحابہ کرام سے مروی ہے۔ علماء نے ایسے جھوٹے کو کافر قرار دیا ہے۔