حدیث حضرت علی رضی اللہ عنہ اور خمسِ غنیمت کا حکم
ماخوذ : قرآن و حدیث کی روشنی میں احکام و مسائل، جلد 01، صفحہ 568

سوال

میں نے صحیح بخاری میں یہ حدیث براہِ راست نہیں دیکھی، لیکن میرا خیال ہے کہ اس میں یہ واقعہ موجود ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایک جنگ کے موقع پر مالِ غنیمت کی تقسیم سے پہلے ہی ایک لونڈی اپنے لیے مخصوص کر لی۔ اس پر ایک صحابی نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ناانصافی کی ہے۔ لیکن رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے اس صحابی کو ڈانٹ دیا اور فرمایا کہ تم علی رضی اللہ عنہ کی شکایت کیوں کرتے ہو؟ پھر بعض لوگ اس پر اعتراض کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایسا نہیں کیا ہوگا اور حدیث ہی غلط ہے۔

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صحیح بخاری جلد دوم، کتاب المغازی، باب بعث علی بن ابی طالب، صفحہ ۶۲۳ کی زیرِ بحث حدیث میں واضح طور پر بیان ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے وہ لونڈی خمس (یعنی مالِ غنیمت کے پانچویں حصے) سے حاصل کی تھی۔

جب ایک صحابی نے اس پر اعتراض کیا تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:

’’علی سے ناراض نہ ہو، کیونکہ علی کا خمس میں حصہ اس (لونڈی) سے کہیں زیادہ ہے۔‘‘

لہٰذا اس حدیث پر اعتراض کرنے کی کوئی گنجائش نہیں بنتی۔

مزید برآں، قرآن مجید کے دسویں پارے کی پہلی آیت مبارکہ میں یہ وضاحت موجود ہے کہ خمسِ غنیمت میں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے قرابت داروں کا بھی حصہ ہے۔ چونکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ رسول کریم صلی الله علیہ وسلم کے قریبی رشتہ دار ہیں، اس لیے یہ معاملہ قرآن و حدیث کے مطابق بالکل درست ہے۔

اب جو لوگ اس حدیث پر اعتراض کرتے ہیں، ان سے سوال ہونا چاہیے کہ وہ قرآن مجید کی اس آیت مبارکہ کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں؟ کیا وہ اسے بھی نعوذباللہ غلط یا جھوٹی قرار دینے کے لیے تیار ہیں؟

نعوذ باللہ من ذالک
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے