سوال:
کیا جنازہ اور تدفین کے متعلق وصیت کرنا جائز ہے؟
جواب:
میت کی وصیت کہ فلاں ہی میرا جنازہ پڑھائے گا یا مخصوص طریقہ پر مخصوص جگہ میں دفن کیا جائے، یا کفن وغیرہ کے متعلق کچھ وصیت کہ اس طرح کریں اور اس طرح نہ کریں، اگر یہ وصیت شرعی تقاضوں کے مطابق ہے، تو جائز و درست ہیں۔
❀ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں:
میں سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں (ان کی مرض الموت میں) حاضر ہوئی، تو آپ رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ نے کتنے کپڑوں میں کفن دیا تھا؟ عرض کیا: تین سفید دھلے ہوئے کپڑوں میں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کفن میں قمیص اور عمامہ شامل نہیں تھا۔ پوچھا: وفات کس دن ہوئی؟ عرض کیا: سوموار کے دن۔ پھر دریافت کیا: آج کیا دن ہے؟ عرض کیا: سوموار کا دن ہے۔ فرمایا: مجھے امید ہے کہ رات تک میں رخصت ہو جاؤں گا۔ اس کے بعد آپ رضی اللہ عنہ نے اپنا مرض میں پہنا ہوا کپڑا دیکھا، اس پر زعفران کا دھبہ لگا تھا، فرمایا: میرے اس کپڑے کو دھو لینا اور اس کے ساتھ دو مزید کپڑے ملا لینا، پھر مجھے انہی میں کفن دینا۔ میں نے کہا: یہ تو پرانا ہے۔ فرمایا: زندہ آدمی نئے کپڑے کا مردے کی بہ نسبت زیادہ مستحق ہے، یہ تو پیپ اور خون کی نظر ہو جائے گا۔ پھر منگل کی رات کا کچھ حصہ گزرنے پر آپ وفات پا گئے اور صبح ہونے سے پہلے آپ کو دفن کر دیا گیا۔
(صحيح البخاري: 1387)
❀ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
عبد اللہ بن عمر! ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں جا کر کہیں: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے آپ کو سلام کہا ہے، پھر عرض کریں کہ اجازت ہو، تو عمر رضی اللہ عنہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ دفن ہو سکتے ہیں؟ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: میں نے یہ جگہ اپنے لیے رکھی تھی، لیکن آج میں اپنی ذات پر عمر رضی اللہ عنہ کو ترجیح دیتی ہوں۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما واپس آئے، تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا: کیا پیغام ہے؟ کہا: امیر المومنین! اجازت مل گئی ہے۔ تو عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے: اس جگہ دفن ہو جاؤں اور کیا چاہیے؟ لیکن آپ میری روح قبض ہونے کے بعد میری میت اٹھا کر عائشہ رضی اللہ عنہا کے دروازے پر لے جائیں گے، عائشہ رضی اللہ عنہا سے میرا سلام کہیں گے اور تدفین کی اجازت طلب کریں گے، اگر اس وقت بھی وہ اجازت دے دیں، تو مجھے وہیں دفن کر دینا، ورنہ مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنا۔
(صحيح البخاري: 1392)
❀ سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
میرے لیے بغلی (لحد والی) قبر تیار کرنا، اس پر اینٹیں لگانا، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر بنائی گئی تھی۔
(صحیح مسلم: 966)
❀ سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے وصیت فرمائی:
ثم أقيموا حول قبري قدر ما تنحر جزور ويقسم لحمها، حتى أستأنس بكم، وأنظر ماذا أراجع به رسل ربي.
میری قبر پر اتنی دیر ٹھہرنا جتنی دیر میں ایک اونٹ کو ذبح کر کے اس کا گوشت تقسیم کیا جاتا ہے۔ یوں میں آپ کی (دعاؤں کی) بدولت وحشت سے بچ جاؤں گا اور مجھے اپنے رب کے بھیجے ہوئے فرشتوں کے سوالات کے جوابات یاد آجائیں گے۔
(صحیح مسلم: 121)
ہمارے مطابق میت کی وصیت کا حرف حرف اتباع ضروری اور مناسب نہیں، بلکہ اس کی وصیت اہل علم کے سامنے رکھی جائے، جو ان میں خلاف شرع اور غیر مباح کام ہوں، انہیں نظر انداز کر دیا جائے اور باقی وصیت پوری کی جائے۔