سوال:
قبرستان میں نماز پڑھنے کا کیا حکم ہے؟
جواب:
قبرستان میں نماز پڑھنا جائز نہیں۔ اس کی ممانعت ہے۔ قبروں کے پاس نماز پڑھنا بھی قبر پرستی کے شرک کا ذریعہ بن سکتا ہے، لہذا اس سے بھی منع کر دیا گیا، اس سلسلے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے متواتر احادیث موجود ہیں۔
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اجعلوا فى بيوتكم من صلاتكم، ولا تتخذوها قبورا.
نماز کا کچھ حصہ گھروں میں ادا کیا کریں، انہیں قبرستان مت بنائیں۔
(صحيح البخاري: 432، صحیح مسلم: 777)
اس حدیث پر امام بخاری رحمہ اللہ نے باندھے الفاظ باب قائم کیا ہے:
باب كراهية الصلاة فى المقابر.
قبرستان میں نماز پڑھنے کی کراہت کا بیان۔
❀ امام ابن منذر رحمہ اللہ (319ھ) فرماتے ہیں:
أبين البيان على أن الصلاة فى المقبرة غير جائز.
یہ حدیث بہت واضح دلیل ہے کہ قبرستان میں نماز جائز نہیں۔
(الأوسط: 417/5)
❀ نیز فرماتے ہیں:
في قوله: ولا تتخذوها قبورا، دليل على أن المقبرة ليست بموضع صلاة لأن فى قوله: اجعلوا فى بيوتكم من صلاتكم، حث على الصلوات فى البيوت وقوله: ولا تتخذوها قبورا، يدل على أن الصلاة غير جائزة فى المقبرة.
فرمان نبوی: اپنے گھروں کو قبرستان مت بنائیں، دلیل ہے کہ قبرستان نماز پڑھنے کی جگہ نہیں، کیونکہ فرمان نبوی: اپنے گھروں میں نماز کا ایک حصہ (نوافل) ادا کیا کریں، میں گھروں میں نماز پڑھنے کی ترغیب ہے، نیز فرمان نبوی: اپنے گھروں کو قبرستان مت بنائیں، میں دلیل ہے کہ قبرستان میں نماز پڑھنا جائز نہیں۔
(الأوسط: 183/2)
سیدنا ابو مرثد غنوی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا تصلوا إلى القبور.
قبروں کی طرف نماز مت پڑھیں۔
(صحیح مسلم: 972)
❀ حافظ نووی رحمہ اللہ (676ھ) فرماتے ہیں:
(سیدنا ابو مرثد غنوی رضی اللہ عنہ کی حدیث کی بنا پر اگر قبرستان میں نماز پڑھنے کو حرام بھی کہا جائے تو) بعید نہیں۔
(المجموع: 158/3)
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا تجعلوا بيوتكم قبورا، ولا تجعلوا قبري عيدا، وصلوا علي؛ فإن صلاتكم تبلغني حيث كنتم.
اپنے گھروں کو قبرستان مت بنائیں، نہ ہی میری قبر کو میلہ بنانا، مجھ پر درود پڑھیں، آپ جہاں بھی ہوں گے، درود مجھ تک پہنچتا رہے گا۔
(مسند الإمام أحمد: 367/2؛ سنن أبي داود: 2042، واللفظ له، وسنده حسن)
حافظ نووی رحمہ اللہ (الأذكار: 106، خلاصة الأحكام: 440/1) اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (فتح الباری: 488/6) نے اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے۔
❀ شیخ الإسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (728ھ) فرماتے ہیں:
هذا إسناد حسن، فإن رواته كلهم ثقات مشاهير.
اس کی سند حسن ہے، اس کے تمام راوی مشہور ثقہ ہیں۔
(اقتضاء الصراط المستقيم: 654/2)
❀ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
رآني عمر وأنا أصلي، فقال: القبر أمامك فنهاني.
میں نماز پڑھ رہا تھا، مجھے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے دیکھا، تو فرمایا: آپ کے سامنے قبر ہے، انہوں نے مجھے (قبر کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے سے) منع کر دیا۔
(مصنف ابن أبي شيبة: 7576، وسنده صحيح)
❀ مسیب بن رافع رحمہ اللہ اور خیثمہ بن عبد الرحمن رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
لا تصل إلى حائط حمام، ولا وسط مقبرة.
حمام کی دیوار کی طرف منہ کر کے اور قبرستان کے اندر نماز مت پڑھیں۔
(مصنف ابن أبي شيبة: 380/2، وسنده صحيح)
امام مکحول رحمہ اللہ کے بارے میں ہے:
إنه كان يكره الصلاة فى المقابر.
آپ رحمہ اللہ قبرستان میں نماز پڑھنا ناپسند کرتے تھے۔
(مصنف ابن أبي شيبة: 380/2، وسنده حسن)
❀ امام ابو بکر اثرم رحمہ اللہ (273ھ) فرماتے ہیں:
إنما كرهت الصلاة فى المقبرة للتشبه بأهل الكتاب؛ لأنهم يتخذون قبور أنبيائهم وصالحيهم مساجد.
بلاشبہ قبرستان میں نماز مکروہ ہے، کیونکہ اس میں اہل کتاب کے ساتھ مشابہت ہے، وہ اپنے نبیوں اور صالحین کی قبروں کو سجدہ گاہ بناتے تھے۔
(إغاثة اللهفان لابن القيم: 343/1، فتح الباری لابن رجب: 201/3)
❀ علامہ ابن حزم رحمہ اللہ (456ھ) فرماتے ہیں:
لا تحل الصلاة فى مقبرة، مقبرة مسلمين كانت أو مقبرة كفار، ولا إلى قبر، ولا عليه، ولو أنه قبر نبي أو غيره.
قبرستان خواہ مسلمانوں کا ہو یا کفار کا، اس میں نماز پڑھنا جائز نہیں۔ اسی طرح قبر کی طرف یا قبر پر بھی نماز پڑھنا جائز نہیں، اگرچہ قبر کسی نبی کی ہو یا کسی اور (ولی) کی۔
(المحلى: 345/2)
شیخ الإسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (728ھ) فرماتے ہیں:
أئمة الدين متفقون على النهي عن ذلك وأنه ليس لأحد أن يقصد الصلاة عند قبر أحد لا نبي ولا غير نبي، وكل من قال: إن قصد الصلاة عند قبر أحد أو عند مسجد بني على قبر أو مشهد أو غير ذلك، أمر مشروع بحيث يستحب ذلك ويكون أفضل من الصلاة فى المسجد الذى لا قبر فيه، فقد مرق من الدين، وخالف إجماع المسلمين، والواجب أن يستتاب قائل هذا ومعتقده، فإن تاب وإلا قتل.
ائمہ دین اس (قبر کے پاس نماز کی ممانعت) پر متفق ہیں، ان کے نزدیک کسی کے لیے جائز نہیں کہ کسی نبی یا غیر نبی کی قبر کے پاس نماز پڑھے اور جو یہ کہتے ہیں کہ کسی قبر یا قبر پر بنی ہوئی مسجد یا مقبرے وغیرہ میں نماز پڑھنا مشروع و مستحب ہے اور عام مسجد میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے، وہ دین سے نکل گئے ہیں اور مسلمانوں کے اجماع کے منکر ہیں، ایسی بات کہنے والے سے توبہ کروانا ضروری ہے، اگر توبہ کرلے، تو ٹھیک ورنہ قتل کر دیا جائے۔
(مجموع الفتاوى: 489/27)
❀ نیز فرماتے ہیں:
لا تصح الصلاة فى المقبرة ولا إليها، والنهي عن ذلك إنما هو لسد ذريعة الشرك.
قبرستان اور قبر کی طرف منہ کر کے پڑھی گئی نماز نہیں ہوتی، اس کی ممانعت اس وجہ سے ہے کہ کہیں یہ شرک کا ذریعہ نہ بن جائے۔
(الفتاوى الكبرى: 327/5)
❀ نیز فرماتے ہیں:
المشهور عندنا أنها محرمة لا تصح، ومن تأمل النصوص المتقدمة تبين له أنها محرمة بلا شك، وأن صلاته لا تصح.
ہمارے ہاں مشہور مذہب یہ ہے کہ قبرستان میں نماز پڑھنا حرام ہے، قبرستان میں نماز نہیں ہوتی، جو شخص ان شرعی نصوص پر غور و خوض کرے گا، وہ جان لے گا کہ قبرستان میں نماز پڑھنا بلا شک و شبہ حرام ہے اور قبرستان میں نماز نہیں ہوتی۔
(اقتضاء الصراط المستقيم: 195/2)
قبرستان میں نماز پڑھنے کے بارے میں اہل علم کا اختلاف ہے، امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ، امام شافعی رحمہ اللہ، امام اسحاق بن راہویہ رحمہ اللہ اور علمائے احناف اس طرف گئے ہیں کہ قبرستان میں نماز پڑھنا جائز نہیں، البتہ مالکی علما جائز سمجھتے ہیں، درست اور راجح بات یہی ہے کہ قبرستان میں نماز پڑھنا جائز نہیں، احادیث کے عموم سے یہی معلوم ہوتا ہے۔ واللہ اعلم!