سنت کے لغوی اور اصطلاحی معنی | قرآن و حدیث کی روشنی میں
ماخوذ: قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام ومسائل، جلد 01، ص 559

سوال

سنت کے لغوی اور اصطلاحی معنی بیان فرمائیں؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

لفظ "سنت” کے چار اطلاق اور استعمال ملتے ہیں:
◄ ایک لغوی
◄ تین اصطلاحی

سنت کا لغوی معنی

◄ لغت میں "سنت” کے معنی ہیں: الطریقة المسلوکة (چلی ہوئی راہ)۔
◄ بعض اہل لغت نے کہا: الطریقة المعتادۃ (معمول کی راہ)۔
◄ کچھ نے لکھا: الطریقة المحمودۃ (پسندیدہ راہ)۔

پہلے دونوں معانی تیسرے معنی سے عام اور خاص کے رشتے میں ہیں۔

سنت کے اصطلاحی معانی

(۱)

رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے اقوال، افعال اور تقاریر سنت کہلاتے ہیں۔
◄ جب سنت کا لفظ دلائل کے بیان میں استعمال ہو تو اس سے یہی معنی مراد ہوتا ہے۔
◄ مثلاً: کہا جاتا ہے هٰذَا الْحُكْمُ ثَابِتٌ أَوْ ثَبَتَ بِالسُّنَّةِ

(۲)

مندوب عمل کو بھی سنت کہا جاتا ہے۔
◄ یہ معنی عام طور پر اس وقت مراد لیا جاتا ہے جب سنت کا لفظ احکام میں استعمال ہو۔
◄ مثال کے طور پر: اگر کہا جائے الأمر الفلاني سُنَّة تو اس سے مقصود یہ ہوگا کہ وہ عمل مندوب ہے:
✿ نہ واجب ہے
✿ نہ فرض ہے
✿ نہ مباح ہے
✿ نہ مکروہ ہے
✿ اور نہ ہی حرام (مخطور) ہے۔

(۳)

جو چیز بدعت نہ ہو اسے بھی سنت کہا جاتا ہے، خواہ وہ فرض اور واجب ہی کیوں نہ ہو۔
◄ اس معنی میں سنت، بدعت کے مقابل ہے۔
◄ جیسے:
✿ پہلے معنی میں سنت، قرآن کے مقابل ہے۔
✿ دوسرے معنی میں سنت، فرض، مباح، مکروہ اور حرام کے مقابل ہے۔

وضاحت

◄ ان تین اصطلاحی معانی میں سے کس معنی کو لینا ہے؟ یہ کلام کے سیاق، سباق، لحاق اور قرائن سے متعین ہوگا۔
◄ جیسا کہ دیگر مشترک الفاظ میں ہوتا ہے۔
◄ شریعت کی کتاب اور سنت میں ان اصطلاحی تخصیصات کو پیش نظر نہیں رکھا گیا۔

لہٰذا:
◈ قرآن و حدیث کے الفاظ کو علوم و فنون کی اصطلاحی تعریفوں پر محمول کرنا درست نہیں۔
◈ اور چونکہ اصطلاحی معانی کے اثبات کے لیے صرف اہل اصطلاح کی نقل کافی ہوتی ہے، اس کے لیے قرآن و حدیث سے دلیل لانا ضروری نہیں۔

مزید تفصیل کے لیے ارشاد الفحول میں سنت کی بحث کا مطالعہ کریں۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے