منہ بولے بیٹے کو باپ کہنا اور ولدیت لکھوانا کیسا؟
ماخوذ: قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام ومسائل، جلد 01، صفحہ 543

سوال کا مفصل بیان:

محمد یوسف ولد صدر دین ایک مسجد میں پیش امام ہیں اور بچوں کو قرآن مجید کی تعلیم بھی دیتے ہیں۔ محمد اسلم ولد خوشی محمد کا مولوی یوسف کے ساتھ ایک پرانا اور برادرانہ تعلق ہے۔ محمد اسلم اپنے بیٹے محمد اکرم کو ساتھ لے کر مولوی یوسف کے پاس آتا ہے اور درخواست کرتا ہے کہ محمد اکرم کو قرآن و حدیث کی تعلیم دی جائے۔ اس کے ساتھ ہی وہ یہ اعلان بھی کرتا ہے کہ:

"آج سے محمد اکرم تمہارا بیٹا ہے۔ ہم کبھی یہ نہیں کہیں گے کہ محمد اکرم ہمارا بیٹا ہے بلکہ ہم خود یہ کہیں گے کہ محمد اکرم مولوی یوسف کا بیٹا ہے۔”

اس وقت محمد اکرم کی عمر تقریباً چھ یا سات سال تھی۔

مولوی یوسف کا طرز عمل:

  • مولوی یوسف نے محمد اکرم کے ساتھ بالکل اپنے بیٹوں جیسا سلوک کیا۔
  • کپڑے، کھانے پینے اور اسکول کی تعلیم کے اخراجات بھی خود برداشت کیے۔
  • یہ سب کچھ محض اس نیت سے کیا کہ محمد اکرم کو اپنا بیٹا سمجھا۔
  • محمد اکرم بھی محبت اور ادب کے جذبے سے مولوی یوسف کو "ابا جی” کہہ کر پکارتا ہے۔
  • محمد اسلم ولد خوشی محمد اس بات پر بہت خوش ہے کہ:

"جب ہم نے اپنے بیٹے کو مولوی یوسف کا بیٹا بنا دیا ہے تو اب وہی اس کے والد ہیں۔”

لیکن ساتھ ہی محمد اسلم کو یہ بات بھی اچھی طرح معلوم ہے کہ محمد اکرم اسی کا حقیقی بیٹا ہے، اور محمد اکرم بھی اپنے والد اسلم کے ساتھ وہی سلوک کرتا ہے جو ایک بیٹا اپنے باپ کے ساتھ کرتا ہے۔

معاشی حالات اور نیت:

  • محمد اسلم ولد خوشی محمد نے بیٹے کو مولوی یوسف کے حوالے غربت یا مالی مجبوری کی بنا پر نہیں کیا۔
  • وہ مالی طور پر خود کفیل ہے، اس کی اپنی زمین ہے اور اسکول میں ہیڈ ماسٹر کے عہدے پر فائز ہے۔
  • یہ سارا معاملہ محض پرانے تعلقات اور استاد کے احترام کی بنیاد پر کیا گیا ہے۔

محمد اکرم کی جوانی اور رویہ:

  • اب محمد اکرم جوان ہو چکا ہے اور مولوی یوسف کو "ابا جی” کہہ کر ہی بلاتا ہے تاکہ ان کا دل نہ دکھے۔
  • مولوی یوسف نے محمد اکرم کے ساتھ اپنے بیٹوں سے بھی بڑھ کر شفقت کی ہے، اور اگر اب محمد اکرم انہیں "ابا جی” نہ کہے تو مولوی صاحب کو شدید دکھ پہنچے گا۔

شناختی کارڈ میں ولدیت کی تبدیلی:

  • اسی جذبۂ محبت و ادب کو سامنے رکھتے ہوئے محمد اسلم نے خود شناختی کارڈ کا فارم بھرا اور دفتر جا کر محمد اکرم کی ولدیت میں "مولوی یوسف” لکھوایا۔
  • اسلم نے یہ بھی کہا:

"آخر جس کے بیٹے کی طرح پالا ہے، وہی ولدیت درج ہونی چاہیے۔ اگر میرا ہوتا تو میری ولدیت لکھی جاتی۔”

سوال کا مرکزی نکتہ:

یہ سارا معاملہ صرف اور صرف محبت، ادب اور احترام پر مبنی ہے۔ نہ یہ حقیقی باپ بیٹے کا رشتہ ہے، نہ قانونی و شرعی بنیاد پر ولدیت کی تبدیلی ہوئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ:

کیا یہ طرز عمل شریعت کے مطابق درست ہے؟

جواب:

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سورۃ الاحزاب کے پہلے رکوع میں منہ بولے بیٹے سے متعلق احکامات بیان کیے گئے ہیں۔ ان احکامات کا خلاصہ درج ذیل ہے:

شرعی ہدایات:

  • محمد اکرم کو مولوی محمد یوسف کو "ابا جی” کہہ کر پکارنا ترک کر دینا چاہیے۔
  • شناختی کارڈ پر درج ولدیت تبدیل کروانا واجب ہے۔
    • "محمد اکرم ولد محمد یوسف” کی جگہ "محمد اکرم ولد محمد اسلم” لکھوایا جائے۔
  • مولوی محمد یوسف کو بھی یہ حق نہیں کہ وہ محمد اکرم کو اپنا بیٹا کہہ کر پکاریں یا ظاہر کریں۔
  • دوستی، برادرانہ تعلقات، محبت و ادب اور خدمت میں کوئی حرج نہیں ہے۔
    • یہ تعلقات قائم رکھنا جائز ہے۔
    • ایک دوسرے کی خدمت کرنا بھی درست ہے۔

اصل مسرت اور خوشی:

ایک مومن کے لیے اصل خوشی اور کامیابی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات کی پابندی میں ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے