بریلوی، دیوبندی اور اہلحدیث کو سلام کہنے اور جواب دینے کا شرعی حکم
ماخوذ : قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام و مسائل، جلد 01، صفحہ 532

سوالات

➊ آج کے بریلوی، جن کا عقیدہ آپ پر واضح ہے، اگر کسی اہلحدیث کو السلام علیکم کہیں تو جواب میں وعلیکم السلام کہا جائے، یا صرف وعلیکم کہا جائے، یا بالکل جواب نہ دیا جائے؟ کیونکہ اہلحدیث انہیں مشرک اور بدعتی سمجھتے ہیں۔

➋ کیا اہلحدیث کو بریلوی کو السلام علیکم کہنے میں پہل کرنی چاہیے یا نہیں؟

➌ کیا اہلحدیث کو دیوبندی کو السلام علیکم کہنا چاہیے یا نہیں، کیونکہ اہلحدیث علماء "محقق” ان کو بھی بریلوی اور قادیانی عقائد کے قریب سمجھتے ہیں؟ جیسا کہ کتاب حنفیت اور مرزائیت تین خونی رشتے، بریلوی، شیعہ، قادیانی از ڈاکٹر محمد حسین، پرانی چیچہ وطنی میں درج ہے۔

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

وعلیکم السلام کہا جائے، کیونکہ وہ کلمہ پڑھتے ہیں، اللہ تعالیٰ، اس کے رسولوں، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، یومِ آخرت اور تقدیر پر ایمان رکھتے ہیں، اور ان میں سے بہت سے لوگ ارکانِ اسلام کے بھی پابند ہیں۔

➋ ہاں، پہل کرنی چاہیے، کیونکہ وہ کلمہ پڑھتے ہیں، اللہ تعالیٰ، اس کے رسولوں وغیرہ پر ایمان رکھتے ہیں۔

➌ ہاں، کہنا چاہیے، کیونکہ وہ بھی کلمہ پڑھتے ہیں، اللہ تعالیٰ، اس کے رسولوں وغیرہ پر ایمان رکھتے ہیں۔ البتہ مرزائی جو غلام احمد قادیانی کو نبی یا مجدد مانتے ہیں، وہ امت سے الگ ہیں، اس لیے ان کا حکم بھی الگ ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے