کیا مقتدی پر فاتحہ کی قرآت واجب ہے؟
ماخوذ: فتاوی امن پوری از شیخ غلام مصطفی ظہیر امن پوری

سوال:

کیا مقتدی پر فاتحہ کی قرآت واجب ہے؟

جواب :

صحیح احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ مقتدی پر فاتحہ کی قرآت واجب ہے۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إن أحدكم إذا قام فى صلاته فإنه يناجي ربه.
”جب آپ میں سے کوئی نماز میں کھڑا ہو تو وہ اپنے رب سے مناجات کرتا ہے۔“
(صحيح البخاري : 405 ، صحیح مسلم : 551)
❀ امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
هذا الخبر بيان واضح بأن على المأموم قراءة فاتحةالكتاب فى صلاته، إذ المصطفىٰ صلى الله عليه وسلم أخبر أن المصلي يناجي ربه، والمناجاة لا تكون إلا بنطق الخطاب دون التسبيح والتكبير والسكوت.
”اس حدیث میں واضح بیان ہے کہ مقتدی کے لیے نماز میں سورت فاتحہ پڑھنا ضروری ہے، کیونکہ مصطفیٰ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے کہ نمازی اپنے رب سے مناجات کرتا ہے، مناجات تو مخاطب کر کے ہی کی جاتی ہیں، (مراد تلاوت ہے) ۔ نہ کہ تسبیح تکبیر اور سکوت سے۔“
(صحیح ابن حبان، تحت الحديث : 1783)
❀ نیز فرماتے ہیں:
الأمر بقراءة فاتحة الكتاب فى الصلاة أمر فرض، قامت الدلالة من أخبار أخر علىٰ صحة فرضيته، ذكرناها فى غير موضع من كتبنا والأمر بقراءة ما تيسر غير فرض، دل الإجماع علىٰ ذٰلك.
”نماز میں سورت فاتحہ کی قرآت کا حکم فرض ہے، دیگر کئی احادیث میں اس کی فرضیت ثابت ہے، جنہیں ہم نے اپنی کتابوں میں کئی جگہ ذکر کیا ہے، جبکہ فاتحہ کے علاوہ قرآت کا حکم فرض نہیں ہے، اجماع اس پر دلیل ہے۔“
(صحیح ابن حبان، تحت الحديث : 1790)
❀ امام عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :
سألت سفيان الثوري قلت : الرجل إذا قام إلى الصلاة، أى شيء ينوي بقراءته وصلاته؟ قال : ينوي أنه يناجي ربه.
”میں نے سفیان ثوری رحمہ اللہ سے پوچھا: جب آدمی نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہے، تو وہ قرآت اور نماز کی کیا نیت کرے؟ فرمایا: نیت کرے کہ وہ اپنے رب سے مناجات کرنے لگا ہے۔“
(تعظيم قدر قدر الصلاة : 159، وسنده صحيح)
❀ سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا صلاة لمن لم يقرأ بفاتحة الكتاب.
”اس شخص کی نماز نہیں ، جس نے سورت فاتحہ کی قرآت نہ کی۔“
(صحيح البخاري : 756 ، صحیح مسلم : 394)
یہ حدیث دلیل ہے کہ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔ یہی اس روایت کا درست مفہوم و معنی ہے۔
بعض کہتے ہیں کہ یہاں ”لا“ نفی جنس کے لیے نہیں، بلکہ نفی کمال کے لیے ہے۔ مطلب کہ نماز ہو جاتی ہے ، البتہ کامل نہیں ہوتی ، بطور دلیل یہ حدیث پیش کرتے ہیں ۔
❀ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا صلاة بحضرة الطعام.
”کھانا حاضر ہو، تو نماز نہیں۔“
(صحیح مسلم : 560)
یہاں” لا “نفی جنس مراد لینے میں اجماع مانع ہے، کیونکہ تمام فقہا مجتہدین کا اجماع ہے کہ کھانے حاضر ہو، تو نماز پڑھی جاسکتی ہے، البتہ اس لیے جماعت ترک کرنے میں رخصت ہے۔
❀ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (774ھ) فرماتے ہیں:
يمنع من ذٰلك إجماع، لا يعرف خلافه عن مجتهد كبير محقق.
” یہاں نماز کے عدم صحت مراد لینے میں اجماع مانع ہے، اس کی مخالفت کسی بڑے محقق مجتہد سے معلوم نہیں ۔“
(كتاب الأحكام الكبير : 444/2)
نیز سورت فاتحہ والی حدیث میں نفی کمال مراد لینے پر یہ روایت بھی پیش کی جاتی ہے؛
لا صلاة لجار المسجد إلا فى المسجد.
”مسجد کے پڑوسی کی نماز صرف مسجد میں ہی ہوتی ہے۔“
(سنن الدارقطني : 1553 )
یہ روایت ضعیف ہے۔ اس طرح یہ روایت سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے موقوفا بھی آتی ہے، وہ بھی ضعیف ہے۔ سعید بن حیان کا سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے سماع معلوم نہیں ہو سکا۔
حدیث عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے کہ جو نماز میں سورت فاتحہ کی قرآت نہ کرے، اس کی نماز نہیں ۔ اس معنی کی تائید کسی صحیح احادیث سے ہوتی ہے۔
❀ سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی ہی ایک روایت کے الفاظ ہیں :
لا تجزئ صلاة لا يقرأ الرجل فيها بفاتحة الكتاب.
”وہ نماز کفایت نہیں کرتی ، جس میں سورت فاتحہ کی قرآت نہ کی جائے ۔“
(سنن الدارقطني : 1225، وسنده صحيح)
❀ امام دار قطنی رحمہ اللہ نے اس کی سند کو ”صحیح“ کہا ہے۔
❀ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا تجزئ صلاة لا يقرأ فيها بفاتحة الكتاب.
”وہ نماز کفایت نہیں کرتی ، جس میں سورت فاتحہ کی قرآت نہ کی جائے ۔“
(صحیح ابن خزيمة : 490 ، صحيح ابن حبان : 1789 ، وسنده صحيح)
حدیث میں لا تجزئ صلاة کے الفاظ سے ثابت ہوا کہ حدیث عبادہ میں مذکورہ لا نفی جنس کا ہے، نہ کہ فی کمال کا ۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے