امام ترمذی کی "حسن” حدیث کے قابل استدلال نہ ہونے کی وضاحت
ماخوذ: قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام ومسائل، جلد 01، صفحہ 548

سوال

➊ بات کیسے ثابت کی جا سکتی ہے کہ جس حدیث کو امام ترمذی "حسن” کہیں وہ نفس الامر بلکہ خود امام موصوف کے ہاں بھی قابل استدلال نہ ہو؟
➋ قابل استدلال، قابل استشہاد، قابل اعتبار — اصطلاحات کی وضاحت کریں؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

(۱) امام ترمذی کی "حسن” حدیث کا قابل استدلال نہ ہونا

جامع ترمذی میں اس کی کئی مثالیں موجود ہیں، لیکن قلتِ فرصت کے باعث یہاں صرف ایک مثال پیش کی جا رہی ہے۔

امام ترمذی رحمہ اللہ تعالیٰ سورۃ الانفال کی تفسیر کے آخر میں ایک حدیث نقل فرمانے کے بعد لکھتے ہیں:

هٰذَا حَدِیْثٌ حَسَنٌ، وَأَبُو عُبَیْدَۃَ بْنُ عَبْدِ اﷲِ لَمْ یَسْمَعْ مِنْ أَبِیْہِ

یہاں واضح ہے کہ امام صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ اس حدیث کو "حسن” بھی قرار دیتے ہیں اور ساتھ ہی اس کے منقطع ہونے کی بھی تصریح فرماتے ہیں۔

محدثین کے ہاں یہ بات مسلم ہے کہ مرسل اور منقطع احادیث قابل احتجاج و استدلال نہیں ہوتیں، جیسا کہ امام مسلم رحمہ اللہ تعالیٰ نے مقدمہ صحیح میں وضاحت سے بیان کیا ہے۔

(۲) اصطلاحات کی وضاحت

قابل احتجاج / قابل استدلال: ایسی حدیث جو صحیح یا حسن ہو۔
قابل استشہاد: وہ حدیث جو شواہد میں ذکر کیے جانے کے قابل ہو۔
قابل اعتبار: وہ حدیث جو شواہد اور متابعات میں ذکر کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔

مزید تفصیل کے لیے اصولِ حدیث کی کتب کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے