سوال
آپ کی کتاب میں یہ بات پڑھی کہ:
"اگر امام ترمذی کسی حدیث کو حسن کہہ دیں تو ضروری نہیں کہ وہ حدیث حقیقت میں، بلکہ خود ان کے نزدیک بھی قابلِ احتجاج ہو۔”
مزید یہ بھی ذکر کیا کہ آپ نے تین چار مثالیں دی ہیں جن میں امام ترمذی نے حدیث کو حسن کہا، مگر اس پر عمل موقوف کرتے ہوئے اسے کالعدم قرار دے دیا۔
ساتھ ہی سوال کیا گیا کہ ابن حزم کے حسن یا تصحیح کے بارے میں بھی وضاحت کی جائے۔
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
محدثین کے نزدیک کسی روایت کے درجۂ احتجاج تک پہنچنے کے لیے چند بنیادی شرائط ضروری ہیں:
◄ تمام راوی ثقہ ہوں (یعنی عادل اور ضابط ہوں)
◄ سند متصل ہو (راویوں کے درمیان کوئی انقطاع نہ ہو)
◄ روایت معلل نہ ہو (یعنی سند یا متن میں کوئی مخفی نقص نہ ہو)
◄ روایت شاذ نہ ہو (یعنی ایسی نہ ہو جو قابل اعتماد روایات کے خلاف ہو)
◄ سند و متن میں کسی قسم کی علت قادحہ یا شذوذ نہ ہو
اگر ان میں سے کوئی ایک شرط بھی موجود نہ ہو، تو وہ روایت محدثین کے ہاں درجۂ قبول و احتجاج سے گر جاتی ہے۔
امام ترمذی رحمہ اللہ کا معیارِ حسن
امام ترمذی رحمہ اللہ کے نزدیک کسی روایت کے حسن ہونے کے لیے محدثین کی تمام مذکورہ شرائط کا پایا جانا ضروری نہیں۔
انہوں نے حسن کی تعریف یوں بیان فرمائی:
"وَمَا ذَکَرْنَا فِی ہٰذَا الْکِتَابِ حَدِیْث ٌ حَسَنٌ فَإِنَّمَا أَرَدْنَا حُسْنَ إِسْنَادِہِ عِنْدَنَا کُلُّ حَدِیْثٍ یُّرْوَی لاَ یَکُوْنُ فِی إِسْنَادِہِ مَنْ یُتَّہَمُ بِالْکَذِبِ وَلاَ یَکُوْنُ الْحَدِیْثُ شَاذًا وَّیُرْوَی مِنْ غَیْرِ وَجْہٍ نَحْوِ ذٰلِکَ فَہُوَ عِنْدَنَا حَدِیْثٌ حَسَنٌ”
(العلل فی آخر جامع الترمذی)
اس تعریف سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ:
◄ ان کے نزدیک حدیث کے حسن ہونے کے لیے اس کا معلل نہ ہونا ضروری نہیں۔
◄ متن کے اعتبار سے شاذ نہ ہونا بھی ضروری نہیں۔
◄ روایت کا متصل ہونا بھی لازمی نہیں۔
◄ بس راویوں کا متہم بالکذب نہ ہونا کافی ہے۔
جبکہ محدثین (بشمول امام ترمذی رحمہ اللہ) کے نزدیک روایت کے درجۂ احتجاج تک پہنچنے کے لیے پہلے ذکر کردہ تمام شرائط کا پایا جانا ضروری ہے۔
مثال — حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث
رفع الیدین نہ کرنے والی حدیث امام ترمذی رحمہ اللہ کے نزدیک ان کی تعریف کے مطابق حسن ہے، لیکن خود ان کے نزدیک بھی یہ قابلِ احتجاج نہیں۔
اس بات کی دلیل یہ ہے کہ انہوں نے عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کا یہ قول نقل کیا:
"لَمْ یَثْبُتْ”
(یعنی یہ ثابت نہیں)
تفصیل کے لیے میری کتاب میں وضاحت موجود ہے۔
ابن حزم رحمہ اللہ کا موقف
ابن حزم رحمہ اللہ نے اس روایت کو صحیح کہا ہے، لیکن ہمارے نزدیک یہ ان کی خطا ہے، کیونکہ اس روایت میں شروطِ قبول و احتجاج میں سے بعض شرائط مفقود ہیں۔
اس کی وضاحت بھی میری کتاب میں موجود ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب