نابالغ بچیوں کے بال کاٹنے کا شرعی حکم اور دلیل
ماخوذ: قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام ومسائل، جلد 01، ص 526

سوال

نابالغ بچیوں کے بال کاٹنے کی کیا دلیل ہے؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صحیح مسلم میں یہ حدیث مذکور ہے:

{عَنِ ابْنِ عُمَرَ سوال اَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله علیہ وسلم نَہٰی عَنِ الْقَزَعِ قَالَ قُلْتُ لِنَافِعٍ وَمَا الْقَزَعُ قَالَ یُحْلَقُ بَعْضُ رَأْسِ الصَّبِیِّ وَیُتْرَکَ بَعْضٌ}
\[رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے قزع سے منع فرمایا۔ عبداللہ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ میں نے نافع سے پوچھا: قزع کیا ہے؟ انہوں نے کہا: بچے کا کچھ سر مونڈ دینا اور کچھ چھوڑ دینا]
(مسلم شریف، کتاب اللباس والزینة، باب کراہة القزع)

اس حدیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ نابالغ بچوں کے سر کے بال مونڈنا جائز ہے، چاہے وہ نابالغ بچے لڑکے ہوں یا لڑکیاں۔

کیونکہ ایک اصول ہے:

"العبرۃ بعموم اللفظ لا بخصوص السبب”
(اعتبار لفظ کے عموم کا ہوتا ہے، سبب کے خاص ہونے کا نہیں)

لہٰذا جب نابالغ بچوں کا سر مونڈنا جائز ہے تو بال کاٹنا بطریقِ اولیٰ جائز ہوگا۔

مزید برآں، احرام کھولنے کے وقت حلق (پورا سر مونڈنا) اور تقصیر (بال کا کچھ حصہ کاٹنا) سے متعلقہ آیات اور احادیث بھی تقصیر کے جواز پر دلالت کرتی ہیں، اور حلق پر بھی۔

البتہ بالغ عورت کے لیے سر مونڈنا کسی بھی حالت میں ممنوع ہے۔ احرام کھولنے کے وقت عورت کے لیے تقصیر (بال کا کچھ حصہ کاٹنا) درست ہے، مگر سر کے آگے یا پیچھے سے اس انداز میں کاٹنا بھی درست نہیں جیسا کہ واصلہ اور مستوصلہ (بال جوڑنے والی اور بال جوڑوانے والی) پر لعنت والی احادیث سے واضح ہوتا ہے۔

ہاں، یہ ضرور یاد رکھنا چاہیے کہ بال کاٹنے کے معاملے میں مسلمان مرد و عورت کو غیر مسلموں کی طرزِ تقصیر اختیار نہیں کرنی چاہیے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے