داڑھی کی ایک مٹھی سے زیادہ لمبائی کا حکم – قرآن و حدیث کی روشنی میں
ماخوذ: قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام و مسائل، جلد 01، صفحہ 517

سوال

الشیخ البانی رحمہ اللہ نے قبضہ کا مسئلہ بیان کیا کہ ایک مٹھی سے زیادہ داڑھی نہیں رکھنا چاہیے بلکہ یا وہ سنت نہیں۔ اس کی وضاحت فرمائیں؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

آپ نے لکھا ہے کہ:

’’الشیخ البانی رحمہ اللہ نے قبضہ کا مسئلہ بیان کیا کہ ایک مٹھی سے زیادہ نہیں رکھنا چاہیے بلکہ زیادہ سنت نہیں‘‘

شیخ البانی رحمہ اللہ تعالیٰ نے دراصل کیا فرمایا یا لکھا ہے، یہ اس وقت ہی واضح ہو سکتا ہے جب ان کے اصل الفاظ سامنے آئیں۔ برائے مہربانی ان کے وہ اصل کلمات بھیجیں جن سے آپ نے یہ بات اخذ کی ہے۔

البتہ یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ داڑھی بڑھانا فرض ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کا فرمان ہے:

{أَعْفُوْا اللُّحٰی}

بعض احادیث و روایات میں یہ الفاظ بھی آئے ہیں:

{وَفِّرُوْا}

{أَرْخُوْا}

کتاب و سنت میں ایسا کوئی قرینہ موجود نہیں جو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے اس حکم کو اس کی حقیقتِ وجوب سے ہٹا کر محض ندب و استحباب کے درجے میں لے آئے۔

اور ظاہر ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے یہ مذکورہ الفاظ داڑھی کو کاٹنے اور منڈانے کے سراسر خلاف ہیں۔

جہاں تک عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی ’’قبضہ‘‘ والی روایت کا تعلق ہے، تو وہ موقوف ہے۔ اور یہ معلوم ہے کہ موقوف روایت سے شرعی حکم ثابت نہیں ہوتا، جب تک کہ وہ حکماً مرفوع نہ ہو۔ اور یہ ’’قبضہ‘‘ والی حدیث موقوف ہے اور حکماً مرفوع بھی نہیں ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے