سوال:
بت پرستی کا سبب کیا بنا؟
جواب:
بت پرستی کا سبب انسانوں کی تعظیم میں غلو بنا، پہلی قوموں میں جب کوئی نیک آدمی فوت ہوتا، تو اس کی قبر کے احترام میں غلو کیا جاتا، یوں آہستہ آہستہ بزرگوں کی مورتیاں بنائی گئیں اور ایک وقت گزرنے کے بعد ان کی پوجا کی جانے لگی۔
❀ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی زوجہ نے گرجا کا تذکرہ کیا، جسے انہوں نے سرزمین حبشہ میں دیکھا تھا، اس گرجا کا نام ماریہ تھا، سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا اور سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سرزمین حبشہ گئی تھیں، انہوں نے اس کے حسن اور اس میں رکھی ہوئی تصویروں کا ذکر کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر اٹھایا اور فرمایا:
أولئك إذا مات منهم الرجل الصالح بنوا على قبره مسجدا، ثم صوروا فيه تلك الصور، أولئك شرار الخلق عند الله
یہی وہ لوگ ہیں کہ جب ان میں کوئی نیک آدمی فوت ہو جاتا تو وہ اس کی قبر کو عبادت گاہ بنا لیتے۔ پھر اس میں ان کی تصویریں بناتے، یہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بدترین مخلوق ہیں۔
(صحيح البخاري: 1341؛ صحیح مسلم: 528)
❀ علامہ ملا علی قاری حنفی رحمہ اللہ (1014ھ) فرماتے ہیں:
المعنى: أولئك من أهل الكتاب، أو من جماعة اليهود والنصارى إذا مات فيهم الرجل الصالح أى من نبي أو ولي بنوا على قبره مسجدا أى متعبدا وسموه كنيسة ثم صوروا فيه تلك الصور أى صور الصالحين تذكيرا بهم وترغيبا فى العبادة لأجلهم، ثم جاء من بعدهم فزين لهم الشيطان أعمالهم، وقال لهم: سلفكم يعبدون هذه الصور فوقعوا فى عبادة الأصنام
مراد یہ ہے کہ وہ نادان لوگ اہل کتاب تھے یا یہود و نصاریٰ میں سے ایک گروہ تھا، جب ان میں سے کوئی نیک آدمی، یعنی کوئی نبی یا ولی فوت ہو جاتا، تو وہ اس کی قبر پر مسجد بنا لیتے، یعنی معبد قائم کرتے اور اس کا نام کنیسہ رکھتے تھے، پھر اس میں نیک لوگوں کی تصویریں بنا کر رکھتے، تاکہ ان کی یاد آتی رہے اور ان کے ذریعے عبادت میں رغبت پیدا ہو، پھر ان کے بعد والے لوگ آئے، تو شیطان نے ان کے لیے پہلوں کے اعمال مزین کر دیے اور ان سے کہا کہ تمہارے اسلاف تصویروں کی پرستش کیا کرتے تھے، تو یہ لوگ ان کی عبادت کرنے لگ گئے۔
(مرقاة المفاتيح: 2558/7)
بزرگوں کی حد درجہ تعظیم ان کے مرنے کے بعد ان کی تصویریں بنانے کا باعث بنی، ایک عرصہ گزر جانے کے بعد ان کی قبر پرستی شروع ہوگئی، ایک وقت کے بعد ان کے بت گھڑے گئے۔ معلوم ہوا کہ قبر پرستی ہی بت پرستی ہے، شروع سے لے کر اب تک انسانوں میں شرک اسی طریقہ سے پھیلا۔
❀ قاضی عیاض رحمہ اللہ (544ھ) فرماتے ہیں:
يعتقد الجهال فى الصلاة إليها وعليها تقربا بذلك، كما كان الأصل فى عبادة الأصنام
جاہل لوگ نماز میں تقرب کی نیت سے قبر کی طرف منہ کرتے ہیں، یہی نظریہ بتوں کی عبادت کی بنیاد بنا۔
(إكمال المعلم: 441/3، المفهم للقرطبي: 628/2)
❀ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (852ھ) فرماتے ہیں:
قصة الصالحين كانت مبتدأ عبادة قوم نوح هذه الأصنام ثم تبعهم من بعدهم على ذلك
نیک لوگوں (کی تعظیم) کا قصہ ہی قوم نوح کے ان بتوں کی عبادت کرنے کا نقطہ آغاز تھا، پھر بعد والے ان کے پیچھے لگ گئے۔
(فتح الباري: 669/8)
❀ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (774ھ) فرماتے ہیں:
أصل عبادة الأصنام من المغالاة فى القبور وأصحابها، وقد أمر النبى صلى الله عليه وسلم بتسوية القبور وطمسها، والمغالاة فى البشر حرام
بتوں کی عبادت کا اصل سبب قبور اور اصحاب قبور کے بارے میں غلو کا شکار ہونا تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کو برابر کرنے اور (اونچی قبروں کو) مٹانے کا حکم دیا ہے۔ بشر کے بارے میں غلو کرنا حرام ہے۔
(البداية والنهاية: 172/14)
دنیا میں شرک اولیاء و صلحاء کی محبت و تعظیم میں غلو کے باعث ہی پھیلا۔
❀ علامہ قرطبی رحمہ اللہ (671ھ) فرماتے ہیں:
يؤدي إلى عبادة من فيها كما كان السبب فى عبادة الأوثان
قبر پرستی اصحاب قبور کی عبادت تک پہنچا دیتی ہے، جس طرح بت پرستی کا سبب بھی یہی بنا۔
(تفسير القرطبي: 380/10)
❀ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (728ھ) فرماتے ہیں:
إن أصل الشرك فى العالم كان من عبادة البشر الصالحين وعبادة تماثيلهم وهم المقصودون، ومن الشرك ما كان أصله عبادة الكواكب؛ إما الشمس وإما القمر وإما غيرهما، وصورت الأصنام طلاسم لتلك الكواكب، وشرك قوم إبراهيم، والله أعلم، كان من هذا أو كان بعضه من هذا، ومن الشرك ما كان أصله عبادة الملائكة أو الجن، وضعت الأصنام لأجلهم، وإلا فنفس الأصنام الجمادية لم تعبد لذاتها، بل لأسباب اقتضت ذلك، وشرك العرب كان أعظمه الأول، وكان فيه من الجميع
دنیا میں شرک کی بنیاد نیک بندوں کی عبادت تھی، نیز ان کی مورتیوں کو بھی پوجا جاتا تھا، لیکن مقصود وہی لوگ تھے۔ شرک کی ایک قسم وہ بھی تھی، جس کی بنیاد ستاروں کی پرستش پر تھی۔ وہ سورج ہو یا چاند یا کوئی اور ستارے، بتوں نے انہی ستاروں کی طلسمی تصویر پیش کی تھی۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی قوم کا شرک پورا کا پورا یہی تھا یا کچھ نہ کچھ اسی پر مبنی تھا۔ شرک کی ایک اور قسم ہے، جس کی بنیاد فرشتوں یا جنوں کی عبادت پر ہے۔ فرشتوں اور جنوں کی یاد میں بت تراشے گئے ہیں، ورنہ بے جان بتوں کی عبادت محض انہی کے لیے کبھی نہیں کی گئی، بلکہ ان کی عبادت کے پیچھے مذکورہ اسباب اس کے متقاضی تھے۔ عربوں کے شرک کا بڑا حصہ پہلی قسم کے شرک سے تھا، البتہ ان میں سب طرح کا شرک پایا جاتا تھا۔
(مجموع الفتاوى: 460/17)
❀ علامہ ابن عابدین شامی حنفی رحمہ اللہ (1252ھ) فرماتے ہیں:
إن أصل عبادة الأصنام اتخاذ قبور الصالحين مساجد
بتوں کی عبادت کی بنیادی وجہ صالحین کی قبروں کو سجدہ گاہ بنانا تھا۔
(فتاویٰ شامی: 380/1)