گناہوں کی معافی کا اختیار: شرعی وضاحت اور روایت
ماخوذ: فتاوی امن پوری از شیخ غلام مصطفی ظہیر امن پوری

سوال:

درج ذیل روایت کی استنادی حیثیت کیا ہے؟
❀ سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
قلت: يا رسول الله صلى الله عليه وسلم، إني أبايعك على أن تغفر لي ما تقدم من ذنبي.
میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! میں آپ سے اس شرط پر بیعت کرتا ہوں کہ آپ میرے گزشتہ گناہ (جرم) معاف کر دیں۔
(مسند الإمام أحمد: 198/4)

جواب:

سند ضعیف ہے۔ حبیب بن اوس (ابی اوس) ثقفی مجہول الحال ہے، اسے صرف امام ابن حبان رحمہ اللہ نے (انشقات: 139/4) میں ذکر کیا ہے۔
نیز اس روایت میں گناہ معاف کرنے سے مراد حالت کفر میں کیے جانے والے جرائم ہیں، کہ جو سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے اسلام اور مسلمانوں پر ظلم ڈھائے تھے، وہ ان مظالم کی معافی مانگتے تھے کہ کہیں اسلام میں داخل ہونے کے بعد مجھے ان کا قصاص نہ دینا پڑے۔ اس لیے یہ شرط لگائی کہ میرے پہلے جرائم معاف کر دیے جائیں۔
اس روایت اور اس مفہوم کی دیگر روایات سے یہ کشید کرنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گناہوں کو معاف کرنے کا اختیار رکھتے ہیں، باطل نظریہ ہے۔ اسلاف امت کی زندگیوں میں اس کا وجود نہیں۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے منقول ہے کہ وہ اپنے گناہوں کی معافی اللہ تعالیٰ سے مانگتے تھے، کبھی کسی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گناہوں کی معافی نہیں مانگی۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے