سوال
میں، نعمانہ خالد بنت خالد صدیق، پنجاب یونیورسٹی، شعبہ علومِ اسلامیہ، لاہور، پاکستان میں ایم۔اے علومِ اسلامیہ کے لیے ایک مقالہ بعنوان "مسلم معاشرے میں غیر مسلموں کی مصنوعات سے استفادہ — دینی و معاشی اعتبار سے جائزہ” لکھ رہی ہوں۔ اس سلسلے میں آپ کی رہنمائی درکار ہے۔
براہِ مہربانی اس سوال کا جواب مرحمت فرما کر میری مدد کریں تاکہ حق کو جاننے میں آسانی ہو۔
آج کل مسلم معاشروں میں غیر مسلموں کی مصنوعات کا استعمال عام ہو چکا ہے، حالانکہ یہ حقیقت واضح ہے کہ غیر مسلم (مثلاً یہود اور قادیانی) ان مصنوعات کی فروخت سے حاصل ہونے والا منافع مسلمانوں کے خلاف سازشوں اور مظلوم مسلمانوں پر ظلم و ستم کرنے پر خرچ کرتے ہیں۔
اس سلسلے میں میری دو گزارشات ہیں:
➊ غیر مسلموں کے معاشی مقاطعہ (بائیکاٹ) کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
➋ کیا مسلمان اپنے ہاں غیر موجود مصنوعات یا تعیشات و سہولیات غیر مسلم ممالک سے درآمد کر سکتے ہیں؟
جواب
الحمد للہ، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
◈ اصولی طور پر غیر مسلموں کے ساتھ تجارت کرنا جائز ہے، بشرطیکہ اس میں کوئی حرام پہلو یا فتنے کا اندیشہ نہ ہو۔
◈ نبی کریم ﷺ نے بھی غیر مسلموں کے ساتھ معاملہ فرمایا۔ چنانچہ جب آپ ﷺ کا وصال ہوا تو آپ کی زرہ ایک یہودی کے پاس تیس صاع جو کے بدلے میں رہن رکھی ہوئی تھی۔
تاہم موجودہ حالات میں، جب کہ مسلمانوں کے خلاف آئے دن سازشوں کے جال بنائے جا رہے ہیں، اور ہم سے منافع کما کر اسے ہمارے ہی خلاف استعمال کیا جا رہا ہے، حتیٰ کہ ہمارے مسلمان بھائیوں کو قتل کیا جا رہا ہے، ایسے میں ہمیں ان کے ساتھ تجارت کی حوصلہ افزائی نہیں کرنی چاہیے اور ان کی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنا چاہیے۔
کیونکہ ان حالات میں ان کے ساتھ تجارت کرنا مسلمانوں کے نقصان کا باعث ہے، اور شریعت نے ہر ایسے عمل سے منع فرمایا ہے جس میں نقصان ہو۔
حدیثِ نبوی ﷺ:
"لا ضرر ولا ضرار” (ابن ماجہ)
لہٰذا، تمام مسلم ممالک کو چاہیے کہ وہ او آئی سی کے پلیٹ فارم سے اسلامی ممالک کی باہمی تجارت کو فروغ دیں، تاکہ کسی مسلمان کو کسی قسم کا نقصان نہ پہنچے۔
هذا ما عندي والله أعلم بالصواب