سوال
زید نے ہندہ سے شادی کی۔ ہندہ اپنی ایک بیٹی ساتھ لائی۔ اب زید اپنے بیٹے کا نکاح اس بیٹی سے کرنا چاہتا ہے۔ کیا یہ نکاح جائز ہے یا نہیں؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
آپ کی سوتیلی والدہ کی پہلے شوہر سے جو بیٹی ہے، اسے آپ کے والد کی ربیبہ کہا جاتا ہے۔ جب آپ کے والد نے اس لڑکی کی والدہ سے نکاح کر لیا اور اس سے دخول بھی کر لیا تو یہ بیٹی صرف آپ کے والد پر حرام ہو جائے گی۔ اس میں کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کے والد نے اس لڑکی کی پرورش کی ہو یا نہ کی ہو، یا وہ بڑی عمر کی ہو یا کم عمر۔
سلف و خلف کے جمہور علماء کرام اور ائمہ اربعہ کا یہی موقف ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حرام عورتوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
﴿حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ أُمَّهَاتُكُمْ وَبَنَاتُكُمْ وَأَخَوَاتُكُمْ وَعَمَّاتُكُمْ وَخَالَاتُكُمْ وَبَنَاتُ الْأَخِ وَبَنَاتُ الْأُخْتِ وَأُمَّهَاتُكُمُ اللَّاتِي أَرْضَعْنَكُمْ وَأَخَوَاتُكُم مِّنَ الرَّضَاعَةِ وَأُمَّهَاتُ نِسَائِكُمْ وَرَبَائِبُكُمُ اللَّاتِي فِي حُجُورِكُم مِّن نِّسَائِكُمُ اللَّاتِي دَخَلْتُم بِهِنَّ فَإِن لَّمْ تَكُونُوا دَخَلْتُم بِهِنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ وَحَلَائِلُ أَبْنَائِكُمُ الَّذِينَ مِنْ أَصْلَابِكُمْ وَأَن تَجْمَعُوا بَيْنَ الْأُخْتَيْنِ إِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ غَفُورًا رَّحِيمًا﴾
(النساء: 23)
آپ کے معاملے میں یہ ربیبہ آپ پر حرام نہیں ہے کیونکہ وہ آپ کے والد کی بیوی کی بیٹی ہے جو پہلے شوہر سے ہے، اور آپ کے ساتھ اس کا کوئی شرعی محرم رشتہ نہیں۔ اس لیے آپ اس سے نکاح بلا کسی حرج کے کر سکتے ہیں۔
مستقل فتویٰ کمیٹی (اللجنۃ الدائمۃ) کا فتویٰ
والد کی بیوی کی بیٹی سے نکاح کے بارے میں جب سوال کیا گیا تو کمیٹی نے جواب دیا:
"مذکورہ لڑکے کے لیے اس لڑکی سے نکاح کرنا جائز ہے، اگرچہ اس کے والد نے لڑکی کی والدہ سے نکاح بھی کر لیا ہو۔”
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَأُحِلَّ لَكُم مَّا وَرَاءَ ذَٰلِكُمْ﴾
(النساء: 24)
یہ لڑکی ان عورتوں میں شامل نہیں جن کا ذکر پچھلی آیت میں صراحت کے ساتھ آیا ہے، اور نہ ہی سنت نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم میں اس کا کوئی ذکر ملتا ہے۔
(دیکھیں: الفتاوی الجامعۃ للمراۃ المسلمۃ، 2 / 600)
ھذا ما عندی واللہ أعلم بالصواب