سوال :
غلو کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟
جواب:
اسلام دین وسط ہے۔ اس میں افراط اور تفریط نہیں۔ غلو اور تقصیر دو انتہا ئیں ہیں ، اسلام ان کے درمیان میں ہے۔ اہل سنت والجماعت اپنے عقائد و اعمال میں توسط پر قائم ہیں۔ غلو اور تقصیر سے الحاد کے جراثیم پیدا ہوتے ہیں ، جو انسان ان میں جتنا بڑھتا جاتا ہے، اتنا ہی دائرہ اسلام سے باہر ہوتا جاتا ہے۔ غلو عقائد اور اعمال دونوں میں ہوتا ہے، عقائد میں غلو ہو، تو شرک وکفر پیدا ہوتا ہے اور اگر اعمال میں غلو ہو، تو بدعات وخرافات جنم لیتی ہیں ، تو جس طرح شرک و کفر اور بدعات وخرافات کے درجات ہیں، اسی طرح غلو اور تقصیر کے بھی درجات ہیں ، بہر صورت یہ ہلاکت ہی ہلاکت ہے۔
شرعی حد سے تجاوز کرنا غلو ہے۔
❀ امام ابو بکر احمد بن علی جصاص حنفی رحمہ اللہ (370 ھ) فرماتے ہیں:
الغلو فى الدين هو مجاوزة حد الحق فيه
دین میں غلو سے مراد اس کی حقیقی اور صحیح حد کو پار کرنا ہے ۔
(أحكام القرآن : 366/2)
❀ امام قتادہ بن دعامہ رحمہ اللہ (118ھ) فرماتے ہیں:
إياكم والتكلف والتنطع والغلو.
تکلف، بے جا گہرائی اورغلو سے بچو
(حلية الأولياء لأبي نعيم الأصبهاني : 336/2، وسنده صحيح)
❀ امام محمد بن نصر مروزی رحمہ اللہ (294ھ) فرماتے ہیں:
عامة أهل الأهواء والبدع إنما هم بين أمرين غلوا فى دين الله وشدة ذهاب فيه حتى يمرقوا منه بمجاوزتهم الحدود التى حدها الله ورسوله أو إحفاء وجحودا به حتى يقصروا عن حدود الله التى حدها، ودين الله موضوع فوق التقصير، ودون الغلو.
تمام بدعتی اور خواہش کے پجاری دو چیزوں پر ہوتے ہیں ؛ دین میں غلو اور سختی کرتے ہیں، یہاں تک کہ دین سے نکلتے ہوئے ان حدود کو پھلانگ جاتے ہیں، جنہیں اللہ اور اس کے رسول نے مقرر کیا ہے، جبکہ دین کو تقصیر سے اوپر اور غلو سے نیچے رکھا گیا ہے۔
(تعظیم قدر الصلاة : 642/2)
❀ امام ابو نعیم احمد بن عبد اللہ اصبہانی رحمہ اللہ (430ھ) فرماتے ہیں:
الحسنة بين السيئتين يعني بترك الغلو والتقصير
نیکی دوبرائیوں کے درمیان ہوتی ہے، اس سے مراد غلو اور تقصیر کو ترک کرنا ہے۔
(حلية الأولياء وطبقات الأصفياء : 209/2)
❀ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (728 ھ) فرماتے ہیں:
دين الله بين الغالي فيه والجافي عنه، وخيار الأمور أوسطها .
اللہ کا دین (اسلام) غلو کرنے والے اور پہلو تہی کرنے والے کے درمیان ہے۔ بہترین اُمور درمیانے ہیں۔
(الفتاوى الكبرى : 663/6)
❀ علامہ ابن قیم الجوزیہ رحمہ اللہ (751ھ) فرماتے ہیں:
دين الله بين الغالي فيه والجافي عنه، وخير الناس النمط الأوسط، الذين ارتفعوا عن تقصير المفرطين، ولم يلحقوا بعلو المعتدين، وقد جعل الله سبحانه هذه الأمة وسطا، وهى الخيار العدل، لتوسطها بين الطرفين المذمومين، والعدل هو الوسط بين طرفي الجور والتفريط .
اللہ کا دین غلو اور تقصیر کے درمیان ہے، بہترین لوگ درمیانے ہیں، جو تقصیر میں بڑھ جانے والوں سے بلند ہیں اور غلو میں زیادتی کرنے والوں سے تعلق نہیں رکھتے ۔ اللہ تعالیٰ نے اس اُمت کو وسط بنایا ہے، جس کا معنی بہترین درمیانی امت ہے، کیونکہ یہ دونوں مذموم طرفین کے درمیان ہے۔ عدل سے مراد ظلم اور تفریط کے درمیانی درجہ ہے۔
(إغاثة اللهفان من مصايد الشيطان : 182/1)
غلو ممنوع و حرام ہے اور بہت بڑی ہلاکت ہے۔ پہلی قوموں کی بربادی اور تباہی کا سبب غلو ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غلو سے منع فرمایا ہے، اسے یہود ونصاری کا عمل بھی کہا گیا ہے۔ یہ بھی سمجھایا گیا ہے کہ یہود و نصاری نے اپنے انبیا کی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیا تھا۔ کسی بھی نبی کی شان میں اس طور غلو کرنا کہ اسے اللہ کی صفات دے دینا بہت بڑی گمراہی ہے۔
پچھلی امتیں اسی سبب سے گمراہ ہوئی تھیں ، عیسائیوں نے سید نا عیسیٰ علیہ السلام کو اور یہود نے سید نا عزیر علیہ السلام کو ابن الله غلو کے باعث ہی کہا۔ نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس کو بڑھا کر اللہ کے مقابلہ میں لے آنا بھی غلو ہے۔ اسی طرح سید نا علی رضی اللہ عنہ اور اہل بیت کے کسی فرد یا کسی نیک صالح انسان کی شان میں بڑھوتری بھی غلو کے زمرے میں آتی ہے، جبکہ اسلام کا راستہ توسط (میانہ) ہے۔ غلو حرام و نا جائز چیز ہے۔
❀ حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وضع دين الله دون الغلو وفوق التقصير
اللہ تعالیٰ کا دین (اسلام ) غلو سے نیچے اور تقصیر سے اوپر رکھا گیا ہے۔
(الزهد لأحمد ابن حنبل : 1643 ، وسنده صحيح)
غلو ممنوع اور حرام ہے۔ پہلے قوموں کی ہلاکت اور تباہی کا باعث غلو ہی بنا۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لَا تَغْلُوا فِي دِينِكُمْ وَلَا تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ إِلَّا الْحَقَّ
(النساء : 171)
اہل کتاب! دین میں غلو مت کرو، اور اللہ پر جھوٹ مت باندھو ۔
❀ علامہ ابن العربی رحمہ اللہ (543ھ) فرماتے ہیں:
نهى الله سبحانه أهل الكتاب عن الغلو فى الدين من طريقيه؛ فى التوحيد، وفي العمل؛ فغلوهم فى التوحيد نسبتهم له الولد سبحانه، وغلوهم فى العمل ما ابتدعوه من الرهبانية فى التحليل والتحريم والعبادة والتكليف .
اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کو دین میں دونوں اعتبار سے غلو کرنے سے منع فرمایا ہے؛ یعنی توحید اور اعمال میں ۔ توحید میں غلو یہ تھا کہ انہوں نے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی طرف اولاد کی نسبت کی ۔ عمل میں غلو یہ تھا کہ انہوں نے حلال و حرام قرار دینے اور عبادت و تکلیف شرعی میں رہبانیت اختیار کر لی تھی ۔
فرمانِ باری تعالی ہے:
(أحكام القرآن : 141/2)
قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لَا تَغْلُوا فِي دِينِكُمْ غَيْرَ الْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعُوا أَهْوَاءَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوا مِنْ قَبْلُ وَأَضَلُّوا كَثِيرًا وَضَلُّوا عَنْ سَوَاءِ السَّبِيلِ
(المائدة : 77)
نبی ! اہل کتاب سے کہہ دیجئے ، دین میں غلو مت کریں اور ان گمراہوں کی خوہشات پر نہ چلیں، جو خود گمراہ ہیں اور بہت سے انسانوں کو راہ حق سے بھٹکانے کا سبب ہیں، یہ لوگ سیدھے راستے سے دور ہو چکے ہیں۔
سید نا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ فرمایا:
هلك المتنطعون.
تکلف کرنے والے ہلاک ہو گئے۔
(صحیح مسلم : 2670)
❀ حافظ خطابی رحمہ اللہ (388ھ) فرماتے ہیں:
المتنطع المتعمق فى المتكلف البحث عنه على مذاهب أهل الكلام الداخلين فيما لا يعنيهم الخائضين فيما لا تبلغه عقولهم .
المتنطع سے مراد وہ شخص ہے، جو ایسی شے میں غور وخوض کرتا ہے، جس کو تلاش کرنا بہت مشکل ہو، جیسا کہ اہل کلام کا طریقہ کار ہے۔ وہ ایسے امور میں داخل ہوتے ہیں، جن میں داخل ہونا بے فائدہ ہے اور ایسی باتوں میں غور و خوض کرتے ہیں ، جن تک ان کی عقلوں کی رسائی ممکن نہیں۔
(معالم السنن : 277/4)
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ فرمایا:
إياكم والغلو فى الدين فإنما هلك من كان قبلكم بالغلو في الدين .
دین میں غلو سے بچیں، کیوں کہ آپ سے پہلے لوگ دین میں غلو کرنے کی وجہ سے ہی تباہ ہوئے ۔
(مسند الإمام أحمد : 215/1، سنن النسائي : 3059، سنن ابن ماجه : 3029، وسنده صحيح)
اس حدیث کو امام ابن الجارود رحمہ اللہ (473 ) ، امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ (2868) اور امام ابن حبان رحمہ اللہ (3871) نے صحیح قرار دیا ہے، امام حاکم رحمہ اللہ (466/1) نے بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح کہا ہے ، حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے موافقت کی ہے۔
❀ علامہ ابو العباس قرطبی رحمہ اللہ (656ھ) فرماتے ہیں:
هم المتعمقون فى الكلام الغالون فيه، ويعني بهم : الغالين فى التأويل العادلين عن ظواهر الشرع بغير دليل؛ كالباطنية، وغلاة الشيعة، وهلاكهم بأن صرفوا عن الحق فى الدنيا، وبأن يعذبوا فى الآخرة .
( وہ لوگ ہلاک ہو گئے ، جو ) کلام کی ( بے جا ) گہرائی میں جاتے ہیں اور اس میں غلو کرتے ہیں، ان سے مراد وہ لوگ ہیں، جو (نص کی ) تاویل میں غلو کرتے ہیں اور بغیر دلیل کے شریعت کے ظاہر سے پہلو تہی کرتے ہیں، جیسا کہ فرقہ باطنیہ اور غالی شیعہ۔ ان کی ہلاکت یوں کہ یہ دنیا میں حق سے پھر گئے اور آخرت میں عذاب سے دوچار ہوں گے۔
(المفهم : 700/6)
❀ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (728ھ) فرماتے ہیں:
قوله: إياكم والغلو فى الدين عام فى جميع أنواع الغلو، فى الاعتقاد والأعمال والغلو : مجاوزة الحد بأن يزاد الشيء فى حمده أو ذمه على ما يستحق ، ونحو ذلك . والنصارى أكثر غلوا فى الاعتقادات والأعمال من سائر الطوائف، وإياهم نهى الله عن الغلو فى القرآن .
فرمان نبوی :” دین میں غلو سے بچیں ۔ “غلو کی تمام اقسام کو شامل ہے ، یعنی اعتقاد اور اعمال دونوں کو۔ غلو سے مراد حد سے تجاوز کرنا ہے، کہ کسی شے کی حقیقی مدح یا مذمت وغیرہ میں زیادتی کر دی جائے۔
تمام مذاہب میں سے سب سے زیادہ عقائد واعمال میں غلو کرنے والے نصاری تھے ، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں نصاری کو غلو کرنے سے منع فرمایا ہے۔
(اقتضاء الصراط المستقيم : 238/1)
نیز فرماتے ہیں:
كذلك الغلو فى بعض المشايخ؛ إما فى الشيخ عدي ويونس القتى أو الحلاج وغيرهم؛ بل الغلو فى على بن أبى طالب رضى الله عنه ونحوه بل الغلو فى المسيح عليه السلام ونحوه، فكل من غلا فى حي؛ أو فى رجل صالح كمثل على رضى الله عنه أو عدي أو نحوه؛ أو فيمن يعتقد فيه الصلاح كالحلاج أو الحاكم الذى كان بمصر أو يونس القتى ونحوهم وجعل فيه نوعا من الإلهية مثل أن يقول : كل رزق لا يرزقنيه الشيخ فلان ما أريده أو يقول إذا ذبح شاة : باسم سيدي، أو يعبده بالسجود له أو لغيره أو يدعوه من دون الله تعالى؛ مثل أن يقول : يا سيدي فلان اغفر لي أو ارحمني أو أنصرني أو أرزقني أو أغثني أو أجرني أو توكلت عليك أو أنت حسبي؛ أو أنا فى حسبك؛ أو نحو هذه الأقوال والأفعال؛ التى هي من خصائص الربوبية التى لا تصلح إلا لله تعالى فكل هذا شرك وضلال يستتاب صاحبه فإن تاب وإلا قتل ، فإن الله إنما أرسل الرسل وأنزل الكتب لنعبد الله وحده لا شريك له ولا نجعل مع الله إلها آخر .
اسی طرح بعض مشائخ کی شان میں غلو کیا جاتا ہے، مثلاً شیخ عدی، یونس قتی اور حلاج وغیرہ، بلکہ سید نا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ وغیرہ کی شان میں غلو اور سیدنا مسیح علیہ السلام و غیرہ کی شان میں غلو ۔ جس نے بھی کسی زندہ کی شان میں غلو کیا یاکسی نیک ہستی جیسے سیدنا علی رضی اللہ عنہ یا عدی وغیرہ کی شان میں غلو کیا یا اس کی شان میں غلو کیا، جس کو صالح سمجھا جاتا ہے،مثلاً حلاج ، حاکم مصر، یا یونس قتی وغیر ہ اور ان کے متعلق الوہیت کی کوئی نوع ثابت کی ، مثلاً یہ کہا کہ جو رزق مجھے فلاں شیخ نہ دے، وہ مجھے نہیں چاہیے۔ یا بکری ذبح کرتے وقت کہا: سیدی کے نام کے ساتھ ۔ یا اسے یا کسی اور کو سجدہ کر کے اس کی عبادت کی ، یا اللہ کے علاوہ اس کی پکار کی ، مثلا یہ کہا : اے فلاں سیدی ! مجھے معاف فرما، مجھ پر رحم فرما، میری مدد فرما، مجھے رزق دے، میری مدد کو آ، مجھے پناہ دے، یا میں تجھ پر توکل کرتا ہوں، تو مجھے کافی ہے، میں تیرے سپرد ہوں یا ان جیسے جملے بولے یا ایسے افعال کا ارتکاب کیا، جور بوبیت کے خصائص ہیں اور اسے صرف اللہ تعالیٰ کے لیے انجام دیا جا سکتا ہے۔ تو یہ سب شرک اور گمراہی ہے، ایسا کرنے والے سے تو بہ کروائی جائے گی، توبہ کرلے، تو درست ورنہ اسے قتل کر دیا جائے ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا رسولوں کو بھیجنے اور کتابوں کو نازل کرنے کا مقصد یہ تھا کہ ہم اللہ وحدہ لاشریک کی ہی عبادت کریں اور اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا الہ نہ بنائیں۔
❀ حافظ ذہبی رحمہ اللہ: (748 ھ) فرماتے ہیں:
(مجموع الفتاوى : 395/3)
الغلو والاطراء منهي عنه، والأدب والتوقير واجب، فإذا اشتبه الإطراء بالتوقير توقف العالم وتورع، وسأل من هو أعلم منه حتى يتبين له الحق ، فيقول به، وإلا فالسكوت واسع له، ويكفيه التوقير المنصوص عليه فى أحاديث لا تحصى، وكذا يكفيه مجانبة الغلو الذى ارتكبه النصارى فى عيسى، ما رضوا له بالنبوة حتى رفعوه إلى الإلهية وإلى الوالدية، وانتهكوا رتبة الربوبية الصمدية، فضلوا وخسروا، فإن إطراء رسول الله صلى الله عليه وسلم يؤدي إلى إسائة الأدب على الرب، نسأل الله تعالى أن يعصمنا بالتقوى، وأن يحفظ علينا حبنا للنبي صلى الله عليه وسلم كما يرضى .
تعظیم میں حد سے بڑھنا ممنوع ہے، جبکہ ادب اور تو قیر واجب ہے۔ جب تعریف میں مبالغہ کا اشتباہ ہو، تو عالم کو توقف کرنا چاہیے اور رُک جانا چاہیے، نیز کسی بڑے عالم سے دریافت کر لے، تا کہ حق واضح ہو جائے ، پھر وہ اس کے بارے میں بات کرے، ورنہ خاموشی بہتر ہے۔ اسے وہی تو قیر کافی ہے، جسے بے شمار احادیث میں وضاحت سے بیان کر دیا گیا ہے۔ اسی طرح غلو سے اجتناب کرے، جس کا ارتکاب نصاری نے عیسی علیہ السلام کے بارے میں کیا۔ وہ ان کی نبوت پر راضی نہیں ہوئے ، بلکہ انہیں اللہ اور اللہ کا بیٹا قرار دیا اور اللہ تعالیٰ کی شان ربوبیت وصمدیت میں نقب لگایا۔ یوں وہ گمراہ اور نا کام ہو گئے ۔ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم میں حد سے بڑھنا اللہ کی گستاخی کی طرف لے جاتا ہے۔ ہم اللہ سے سوال کرتے ہیں کہ وہ تقویٰ کی بدولت ہمیں بچالے اور جیسے اسے پسند ہے، ہمارے دلوں میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت راسخ فرما دے۔
(میزان الاعتدال : 650/2)
❀ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ (751ھ) فرماتے ہیں:
إنما هو اعتقادهم أنه كلما غلوا وزادوا غلوا فيه كانوا أقرب إليه وأخص به فهم أعصى الناس لأمره وأشدهم مخالفة لسنته وهؤلاء فيهم شبه ظاهر من النصارى الذين غلوا فى المسيح أعظم الغلو وخالفوا شرعه ودينه أعظم المخالفة، والمقصود أن هؤلاء يصدقون بالأحاديث المكذوبة الصريحة ويحرفون الأحاديث الصحيحة عن مواضعها لترويج معتقداتهم .
ان لوگوں کا عقیدہ ہے کہ وہ جتنا غلو کریں گے، اتنا زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرب اور خاص بن جائیں گے، حالانکہ یہ لوگ سب لوگوں سے بڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوامر اور آپ کی سنتوں کے مخالف و نافرمان ہیں۔ یہ لوگ واضح طور پر ان نصاری سے مشابہت رکھتے ہیں جنہوں نے سیدنا عیسی علیہ السلام کے بارے میں بہت زیادہ غلو سے کام لیا اور ان کی شریعت کی بہت زیادہ مخالفت کی۔
(المنار المنيف، ص 84)