اسلام میں تعویذ کی شرعی حیثیت
حدیث میں "تمیمہ” کو شرک قرار دیے جانے کا مطلب اور تعویذ کے متعلق حکم
سوال:
اسلام میں تعویذ کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ حدیث شریف میں "تمیمہ” لگانے کو شرک کہا گیا ہے، اس "تمیمہ” سے کیا مراد ہے؟ اور کیا تعویذ بدعت کے زمرے میں آتا ہے؟
جواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
تعویذ کا شرعی ثبوت
رسول اللہ ﷺ سے تعویذ استعمال کرنا ثابت نہیں ہے۔ یعنی آپ ﷺ نے خود کبھی تعویذ استعمال نہیں فرمایا اور نہ ہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ایسی کوئی صحیح روایت مروی ہے جس میں تعویذ کو بطور عمل اپنایا گیا ہو۔
"تمیمہ” کا معنی کیا ہے؟
صاحبِ قاموس نے "تمیمہ” کی وضاحت ان الفاظ میں کی ہے:
«وَالتَّمِيْمُ التَّامُ الْخَلْقِ وَالشَّدِيْدُ وَجَمْعُ تَمِيْمَةٍ کَالتَّمَائِمِ لِخَرَزَةِ رَقْطَاءٍ تُنْظَمُ فِی السَّيْرِ ثُمَّ يُعْقَدُ فِی الْعُنُقِ»
یعنی:
"اور تمیم” کا معنی ہے مکمل ساخت والا اور مضبوط، اور "تمیمہ” کی جمع "تمائم” ہے۔ تمیمہ اس دھاری دار منکے کو کہا جاتا ہے جسے تسمہ میں پرویا جاتا ہے اور پھر گردن میں باندھا جاتا ہے۔
شرعی حیثیت کا خلاصہ
◈ تعویذ کا استعمال رسول اللہ ﷺ سے ثابت نہیں۔
◈ تمیمہ ان اشیاء کو کہا جاتا تھا جنہیں لوگ دھاگے میں پرو کر گردن میں باندھتے تھے بطورِ تعویذ۔
◈ حدیث میں ایسے "تمائم” کے استعمال کو شرک قرار دیا گیا ہے، جو اللہ کے علاوہ کسی اور سے نفع یا نقصان کی امید پر پہنا جاتا تھا۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب