شطرنج کھیلنے کے بارے میں شرعی حکم کیا ہے؟ مفصل وضاحت
سوال:
علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کیا فرماتے ہیں کہ شطرنج جو آج کل عام ہو چکی ہے، اس کا شرعی حکم کیا ہے؟ ایک تفصیلی جواب درکار ہے جو واضح دلائل پر مبنی ہو تاکہ ہر قسم کا شبہ دور ہو جائے۔ یہ شبہ اس وجہ سے پیدا ہوا ہے کہ بعض مدرسین سے جب شطرنج کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا:
✿ اگر شطرنج کسی شرط (یعنی جوا) کے ساتھ کھیلی جائے تو یہ حرام ہے۔
✿ اگر محض وقت گزارنے کے لیے کھیلی جائے تو ہم شدت اختیار کرتے ہوئے یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ مکروہ ہے۔
بعد ازاں جب ان کی نشاندہی پر شرح صحیح مسلم، عون المعبود، اور مشکوٰۃ کے حواشی بمع حوالہ مرقاۃ کا مطالعہ کیا گیا، تو وہاں بھی مختلف علماء کے اقوال سے شبہ باقی رہا۔ اسی تردد کے خاتمے کے لیے آپ کی طرف رجوع کیا گیا ہے۔
جواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
شطرنج کھیلنا ناجائز ہے کیونکہ اس کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کے فرامین مبارکہ موجود ہیں، جو واضح طور پر اس کے عدم جواز پر دلالت کرتے ہیں:
پہلی حدیث:
«کُلُّ شَيْئٍ يَلْهُوْ بِهِ الرَّجُلُ بَاطِلٌ اِلاَّ رَمْیَ الرَّجُلِ بِقَوْسِهِ وَتَأْدِيْبَهُ فَرَسَهُ وَمُلاَعَبَتَهُ اَهْلَهُ فَإِنَّهُنَّ مِنَ الْحَقِّ»
(سنن دارمى، ج2، ص124، حدیث 2410)
ترجمہ:
"ہر وہ چیز جس کے ساتھ آدمی کھیلتا ہے، وہ باطل ہے، سوائے ان تین چیزوں کے:
◈ اپنی کمان سے تیر اندازی کرنا،
◈ اپنے گھوڑے کو ادب سکھانا،
◈ اپنی بیوی سے کھیلنا؛
یہ تینوں چیزیں حق ہیں۔”
وضاحت:
محشی سید عبداللہ ہاشم یمانی لکھتے ہیں:
"رواہ ایضا احمد والاربعۃ وابن الجارود وابن حبان والحاکم وصححہ واقرہ الذہبی ۱۲۴/۲۔”
دوسری حدیث:
«کُلُّ شَيْئٍ لَيْسَ مِنْ ذِکْرِ اﷲِ عَزَّوَجَلَّ فَهُوَ (لَغْوٌوَّ) لَهْوٌ وَسَهْوٌ اِلاَّ اَرْبَعَ خِصَالٍ: مَشْیَ الرَّجُلِ بَيْنَ الْغَرَضَيْنِ، وَتَادِيْبَهُ فَرَسَهُ، وَمُلاَعَبَتَهُ اَهْلَهُ، وَتَعَلُّمَ السَّبَاحَةِ»
ترجمہ:
"ہر وہ چیز جو ذکرِ اللہ عزوجل کے علاوہ ہو، وہ لغو، لہو اور سہو ہے، سوائے چار چیزوں کے:
◈ دو نشانات کے درمیان چلنا (تیر اندازی کی مشق)،
◈ اپنے گھوڑے کو ادب سکھانا،
◈ اپنی بیوی سے کھیلنا،
◈ تیراکی سیکھنا۔”
حوالہ:
اخرجہ النسائی فی کتاب عشرة النساء (ق ۷۴/۲)، والزيادة له، والطبرانی فی المعجم الکبير (۸۹/۱/۲)، وابو نعيم فی احاديث ابی القاسم الاصم (ق ۱۷/۱۷) من طريقين عن محمد بن سلمة عن ابی عبدالرحيم عن عبدالوهاب بن بخت عن عطاء بن ابی رباح قال:
"میں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما اور جابر بن عمیر انصاری رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ دونوں تیر اندازی کر رہے تھے۔ ان میں سے ایک تھک کر بیٹھ گیا تو دوسرے نے کہا: کیا تم سست ہو گئے ہو؟ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا…”
وضاحت:
یہ سند صحیح ہے، اس کے رجال ثقہ ہیں، اور یہ رجال مسلم کے رجال ہیں، سوائے عبدالوہاب بن بخت کے، جو متفقہ طور پر ثقہ ہیں۔ (سلسلة الاحاديث الصحيحة، ج4)
ان احادیث کا مفہوم:
یہ تمام احادیث واضح طور پر بتاتی ہیں کہ وہ کھیل یا مشغلے جو نہ تو ذکر اللہ میں شمار ہوتے ہیں اور نہ ہی کسی شرعی دلیل سے ثابت ہوتے ہیں، وہ باطل، لغو، اور لہو کے زمرے میں آتے ہیں۔
✿ شطرنج ان امور میں شامل نہیں ہے جنہیں احادیث میں حق قرار دیا گیا ہے۔
✿ نہ ہی اس کی اباحت قرآن یا سنت سے ثابت ہے۔
امام ابن حزم کا موقف:
اگرچہ حافظ ابن حزم رحمہ اللہ نے ان احادیث پر کچھ اعتراضات کیے ہیں، مگر یہ اعتراضات ناقابلِ التفات ہیں اور جمہور علماء کی رائے ان کے خلاف ہے۔
نتیجہ:
مندرجہ بالا دلائل اور احادیث کے عمومی مفہوم سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ:
◈ شطرنج کھیلنا جائز نہیں ہے۔
◈ کیونکہ یہ نہ تو ذکر اللہ ہے، نہ عبادت ہے، نہ نفع بخش مشق ہے، اور نہ ہی اس کے جواز کی کوئی واضح دلیل موجود ہے۔
◈ مذکورہ احادیث کا عمومی مفہوم اس کے ناجائز ہونے پر دلالت کرتا ہے۔
◈ جیسا کہ پہلی حدیث میں "باطل” کی وضاحت دوسرے مقام پر "لغو، لہو، سہو” کے ساتھ کر دی گئی ہے۔
ھذا ما عندی واللہ أعلم بالصواب