سوال:
فارغ اوقات میں انسان مختلف قسم کے کھیل کھیلتا ہے۔ کیا ایسے تمام کھیل درست ہیں جن میں شرط وغیرہ نہ لگائی جائے، جیسے کہ لڈو وغیرہ؟
جواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے:
«لاَ سَبَقَ إِلاَّ فِیْ نَصْلٍ أَوْ خُفٍّ أَوْ حَافِرٍ»
مشکوة – کتاب الجہاد – باب إعداد آلة الجہاد – الفصل الثانی – حدیث 3874
"آگے بڑھنے کی شرط لگانا جائز نہیں مگر تیر اندازی، اونٹ دوڑانے یا گھوڑا دوڑانے میں۔”
اسی طرح رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«کُلُّ شَيْئٍ يَلْهُوْ بِهِ الرَّجُلُ بَاطِلٌ إِلاَّ رَمْيَه بِقَوْسِهِ ، وَتَأْدِيْبَهُ فَرَسَهُ ، وَمُلاَعَبَتَهُ امْرَأَتَهُ فَإِنَّهُنَّ مِنَ الْحَقِّ»
مشکوة – کتاب الجہاد – باب إعداد آلة الجہاد – الفصل الثانی – حدیث 3872
"جس چیز سے آدمی کھیلتا ہے، وہ سب باطل ہے، سوائے ان تین کے:
◈ اپنی کمان سے تیر اندازی
◈ اپنے گھوڑے کو تربیت دینا
◈ اپنی بیوی سے کھیلنا
یہ سب حق ہیں۔”
ان احادیث کی روشنی میں واضح ہوتا ہے کہ شریعت نے صرف ان کھیلوں کو جائز قرار دیا ہے جو جہاد کی تیاری میں مددگار ہوں یا جائز و مشروع تفریح کی صورت اختیار کریں۔ لہٰذا، لڈو، فٹ بال، والی بال، کرکٹ، گلی ڈنڈا وغیرہ جیسے کھیل ان میں شامل نہیں ہیں، کیونکہ یہ نہ تو جہاد کی تیاری کا حصہ ہیں اور نہ ہی ان کی مشروعیت کسی شرعی دلیل سے ثابت ہے۔
هٰذَا مَا عِندِی وَاللّٰہُ أَعْلَمُ بِالصَّوَاب