اسلام میں شہادت کی اقسام اور افضل شہادت کا مفہوم
ماخوذ: احکام و مسائل، جہاد و امارت کے مسائل، جلد 1، صفحہ 453

سوال

شہادت کی تعریف کیا ہے؟ دین اسلام کن لوگوں کو شہید کہتا ہے؟ شہادت کی کتنی اقسام ہیں اور ان میں سے افضل شہادت کون سی ہے؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اسلام میں شہادت ایک بلند مرتبہ ہے جو اللہ کی راہ میں قربانی دینے والوں کو حاصل ہوتا ہے۔ اس کا مفہوم نہایت عظیم ہے اور قرآن و حدیث میں اس کی بہت فضیلت بیان کی گئی ہے۔

شہادت کی تعریف

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

«مَنْ قَاتَلَ لِتَکُوْنَ کَلِمَةُ اﷲِ هِیَ الْعُلْيَا فَهُوَ فِیْ سَبِيْلِ اﷲِ»
(كتاب الجهاد والسير، صحيح بخارى، باب من قاتل لتكون كلمة الله هى العليا)

یعنی:

’’جو شخص اللہ کے کلمے کو بلند کرنے کے لیے قتال کرے، وہی اللہ کے راستے میں (شہید) ہے۔‘‘

یہ حدیث واضح کرتی ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کے دین کو غالب کرنے کی نیت سے جہاد کرتا ہے اور اپنی جان قربان کر دیتا ہے، وہ حقیقی معنوں میں راہِ خدا کے شہداء میں شمار ہوتا ہے۔

شہید ہونے والوں کی دیگر اقسام

شہادت صرف میدانِ جنگ میں لڑنے والوں کے لیے مخصوص نہیں ہے، بلکہ کچھ دیگر افراد بھی احادیث کی رو سے شہید قرار دیے گئے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

«أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ ﷺ قَالَ الشُّهَدَاءَ خَمْسَةٌ: الْمَطْعُوْنُ، وَالْمَبْطُوْنُ، وَالْغَرِقُ، وَصَاحِبُ الْهَدْمِ، وَالشَّهِيْدُ فِیْ سَبِيْلِ اﷲِ»
(باب الشهادة سبع سوى القتل، صحيح بخارى، كتاب الجهاد والسير)

یعنی:

’’رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: شہداء پانچ ہیں:

  • طاعون میں مرنے والا
  • پیٹ کی بیماری میں فوت ہونے والا
  • پانی میں ڈوب کر مرنے والا
  • کسی عمارت وغیرہ کے منہدم ہونے سے مرنے والا
  • اور جو اللہ کی راہ میں شہید ہو‘‘

شہادت کی اقسام

ان احادیث کی روشنی میں شہادت کی دو اہم اقسام ظاہر ہوتی ہیں:

➊ حقیقی شہادت

وہ شہادت جو جہاد فی سبیل اللہ میں حاصل ہوتی ہے۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو اللہ کے دین کو غالب کرنے کے لیے لڑتے ہیں اور جان قربان کرتے ہیں۔

➋ حکمی شہادت

وہ افراد جو طبعی یا حادثاتی موت کا شکار ہوتے ہیں، لیکن ان کی موت کو شریعت نے شہادت کا درجہ دیا ہے، جیسے:

  • طاعون میں مرنے والے
  • پیٹ کی بیماری میں وفات پانے والے
  • ڈوبنے والے
  • عمارت گرنے سے مرنے والے

افضل شہادت

درج بالا تمام اقسام میں سب سے اعلیٰ اور افضل شہادت وہ ہے جو اللہ کی راہ میں قتال کے دوران حاصل ہوتی ہے، جیسا کہ حدیث:

«مَنْ قَاتَلَ لِتَکُوْنَ كَلِمَةُ اﷲِ هِیَ الْعُلْيَا فَهُوَ فِیْ سَبِيْلِ اﷲِ»

سے واضح ہے۔

ھذا ما عندي، والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے