مشورہ، شوریٰ کے ارکان کی تعیین اور اختلاف رائے کا فیصلہ
سوال :
امیر جس سے چاہے مشورہ کرے یا ارکانِ شوریٰ کی تعیین ثابت ہے؟ اور کیا یہ تعیین عوام کے عام انتخاب سے ہوگی یا امیر کی طرف سے نامزدگی کی صورت میں ہوگی؟
مجلسِ شوریٰ میں اختلاف رائے کی صورت میں فیصلہ کس طرح کیا جائے گا؟
- اتفاقِ رائے سے؟
- کثرتِ رائے سے؟
- یا فیصلہ کا حق امیر کو حاصل ہوگا؟
قرآن و سنت اور خلفائے راشدین کے عمل کی روشنی میں اس کا جواب مطلوب ہے۔
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
شوریٰ اور مشورہ کا اصول:
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا:
﴿وَشَاوِرۡهُمۡ فِي ٱلۡأَمۡرِۖرِ﴾
’’اور معاملہ میں ان سے مشورہ لے‘‘
(آل عمران: 159)
اسی طرح ایک اور مقام پر ارشاد ہے:
﴿وَأَمۡرُهُمۡ شُورَىٰ بَيۡنَهُمۡ﴾
’’اور ان کا کام آپس کی صلاح سے چلتا ہے‘‘
(الشورى: 38)
ان آیاتِ مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ:
✿ مشورہ دین اسلام کا اہم اصول ہے۔
✿ معاملات میں اہلِ رائے سے مشورہ لیا جانا ضروری ہے۔
✿ شوریٰ کے ذریعے اجتماعی فیصلے کیے جاتے ہیں۔
تاہم موجودہ دور میں جو "مجلسِ شوریٰ” کی اصطلاح رائج ہے، اس کا کوئی واضح ذکر کتاب و سنت میں موجود نہیں۔
✿ اس لیے "ارکانِ شوریٰ” کی تعداد، ان کا تعین، اور یہ کہ ان کا انتخاب عوامی ووٹ سے ہو یا امیر کی طرف سے نامزدگی ہو، یہ سب بعد کی پیدا کردہ تفصیلات ہیں۔
اختلافِ رائے کی صورت میں فیصلہ کا طریقہ:
فیصلہ کتاب و سنت کی روشنی میں ہوگا۔
✿ امیر کو اختیار ہے کہ جس رائے کو وہ کتاب و سنت کے زیادہ موافق یا قریب تر سمجھے، اسی کو اختیار کرے۔
✿ چاہے وہ رائے اکثریت کی ہو یا اقلیت کی، اصل معیار مطابقتِ کتاب و سنت ہوگا۔
یعنی:
✿ فیصلہ نہ محض اتفاقِ رائے سے ہوگا،
✿ نہ ہی صرف اکثریت کی بنیاد پر،
✿ بلکہ امیر یہ دیکھے گا کہ کون سی رائے قرآن و سنت کے قریب تر ہے، اسی رائے پر عمل کیا جائے گا۔
ھٰذَا مَا عِنْدِي وَاللّٰهُ أَعْلَمُ بِالصَّوَابِ