جماعت، امیر اور حدیث جاہلیت کی موت کی شرعی وضاحت
ماخوذ : احکام و مسائل، جہاد و امارت کے مسائل، جلد 1، صفحہ 452

سوال کا مفصل جواب (از روئے کتاب و سنت)

سوال:

حدیث شریف میں بیان کیا گیا ہے کہ جو شخص جماعت سے علیحدہ ہو کر مر جائے، اس کی موت جاہلیت کی موت ہوتی ہے۔ جماعت کے قیام کے لیے ایک امیر کا ہونا لازمی ہے، اور بغیر امیر کے جماعت مکمل نہیں ہوتی۔ ہمیں معلوم ہے کہ جماعت اہل حدیث میں مختلف امیر اور مختلف جماعتیں پائی جاتی ہیں۔ آپ ہمیں یہ بتائیں کہ ہم کس جماعت اور کس امیر کی پیروی کریں؟ کیا آپ خود کسی امیر اور جماعت کے ساتھ وابستہ ہیں؟ ہمارے اکثر علماء کرام کا کہنا ہے کہ جماعت اہل حدیث ہی حق پر ہے کیونکہ وہ صرف قرآن و حدیث کی دعوت دیتی ہے اور اسی کے مطابق چلتی ہے۔ تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مختلف امیر اور جماعتیں کیوں قائم کی گئی ہیں؟ صرف ایک امیر اور ایک جماعت ہونی چاہیے، ورنہ ہمیں ان تمام امیروں اور جماعتوں سے علیحدہ ہو جانا چاہیے۔ براہِ کرم اللہ کے واسطے ہماری صحیح رہنمائی فرمائیں۔

جواب:

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

حدیث شریف میں جو بات بیان کی گئی ہے کہ جو شخص جماعت سے الگ ہو کر فوت ہو، تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہوتی ہے، اس کا اطلاق اسی وقت کیا جا سکتا ہے جب حقیقی جماعت اور امیر کا وجود موجود ہو۔

اگر ایسی کوئی جماعت اور امیر نہ ہو، تو پھر احادیث اور شریعت کی روشنی میں حکم یہ ہے کہ ان تمام گروہوں سے علیحدہ رہا جائے۔

اسی ایک بات میں آپ کے تمام سوالات کا جواب موجود ہے۔ آپ اس بات پر غور کریں، اور کتاب و سنت پر عمل پیرا رہیں۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے